آج پاکستان کی ممتاز علمی اور ادبی شخصیت پروفیسر رئیس علوی کی برسی ہے۔ پاکستان میں انھیں ایک ماہرِ تعلیم، شاعر، ادیب اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ رئیس علوی یکم دسمبر 2021ء کو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں انتقال کر گئے تھے۔
پروفیسر رئیس علوی نے تعلیم کے شعبے میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ وہ ای ڈی او تعلیم، رجسٹرار جامعہ کراچی، ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم رہے۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا اور چند ماہ سے اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی 7 مئی 1946ء کو ہیدا ہوئے۔ میٹرک اور ایف اے لکھنؤ سے کیا۔ 1961ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ بی اے کراچی کے نیشنل کالج سے 1963ء میں جب کہ اردو کے مضمون میں ایم اے کی سند کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں حاصل کی۔ وہ سراج الدولہ کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ رئیس علوی کا شمار ان علمی شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں بھی اردو پڑھانے کا موقع دیا گیا۔ وہ وہاں پروفیسر رہے۔ وطن واپسی پر سندھ کے محکمہ تعلیم کے انتظامی امور سنبھالے اور دوسرے عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد کراچی کی شہری حکومت نے انھیں محکمۂ تعلیم کی سربراہی سونپ دی۔
2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی، اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی یو پی نے اردو زبان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر رئیس علوی کو ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ فیض احمد فیض کے بعد دوسرے پاکستانی ہیں جنھیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ پروفیسر علوی نے 2010ء میں نیوزی لینڈ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اردو ہندی کلچرل ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ کا نہ صرف خاکہ پیش کیا بلکہ ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد اس کے سرپرست اعلیٰ بھی مقرر ہوئے۔ انھیں مختلف سیمیناروں، علمی و ادبی مذاکروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ پروفیسر صاحب سمجھتے تھے کہ چین، فرانس اور روس نے اپنی زبان کو ترقی دی، اسے سرکاری اور قومی سطح پر اپنایا اور فروغ دیا، اسی طرح پاکستان میں بھی حکومت کو اردو زبان کی سرپرستی اور اس کے فروغ کے لیے مثالی کام کرنا چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی نے ادبی و تعلیمی موضوعات پر بہت سے مضامین اور مقالات لکھے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں ان کا شعری مجموعہ ’’صدا ابھرتی ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپانی ادب و زبان پر 5 کتابیں تصنیف کیں۔ وہ جاپانی زبان پر عبور رکھتے تھے اور پاکستان اور جاپان کے علمی و ادبی حلقوں میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پروفیسر رئیس علوی نے جاپانی زبان سے متعدد کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کے تراجم میں بارہویں صدی کے مشہور جاپانی شاعر سئی گیو کے دیوان کا ترجمہ ’’چاند کے رنگ‘‘ اور دوسرا مینوشو کا ترجمہ شامل ہے۔ ’’گل صد برگ‘‘ وہ قدیم جاپانی ترین کلیات ہے جس کا تین جلدوں پر مشتمل ترجمہ کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ اس کے علاوہ جاپان کے عظیم شاعر اور ہائیکو کے سرخیل جناب متسواوبشو کے ایک سدا بہار سفر نامہ کا ترجمہ ’’اندرون شمال کا تنگ راستہ‘‘ کے نام سے پروفیسر رئیس علوی کی کاوش ہے۔