بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے مختلف اہم شعبوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والی ممتاز ترین شخصیت رفیع پیرزادہ کی ہے اور بعد میں اسی گھرانے کی شخصیات تھیٹر اور فلم، ڈراما، رقص، موسیقی اور پتلی تماشے کے فن میں نمایاں ہوئیں۔

رفیع پیرزادہ 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے گجرات میں آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے گئے۔ وہ علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یوں رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور فنونِ لطیفہ سے اوائلِ عمری ہی میں واقف ہوگئے۔

کہتے ہیں کہ جب رفیع پیرزادہ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر پیش کرنے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا، اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے اور معلوم ہوا کہ تھیٹر کا یہ آخری دن ہے اور اب یہ لوگ دلّی روانہ ہو رہے ہیں۔ کم عمر رفیع پیرزادہ کے دل میں کیا آیا کہ کچھ نہ دیکھا اور کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ ادھر اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ دلّی پہنچ کر جب وہاں تھیٹر کے منتظمین نے شو کا آغاز کیا تو جس مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا، وہ رفیع پیر کے دادا کے دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑ گئی اور اسے پہچان لیا، پوچھنے پر آگاہ ہوئے کہ رفیع پیر نے تھیٹر کے شوق میں کیسی حرکت کی ہے۔ فوراً اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور یوں وہ چند روز بعد لاہور پہنچا دیے گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رفیع پیر اداکاری کے کس قدر دیوانے تھے۔

- Advertisement -

رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ ان کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے اور رفیع ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ اکثر جلسوں میں آگے آگے رہتے اور قائدین کے ساتھ ساتھ وہ بھی پولیس کی نظروں میں آ گئے۔ تب اہلِ خانہ نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں وہ قانون کی تعلیم کی غرض سے اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ برلن گئے جو پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے اور یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا تھی۔انھوں نے کسی طرح برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کی توجہ حاصل کر لی تھی جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں خاصا کام کیا اور اس عرصے میں معروف فن کاروں کے درمیان رہنے اور سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

اسی زمانے میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور ہٹلر سے نفرت اور کچھ معاملات کے سبب چند سال بعد رفیع پیر وہاں سے ہندوستان پہنچ گئے، لیکن خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں جب کہ بیٹی بچ گئی اور طویل عمر پائی۔

رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے اور وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے ان کی شادی کروا دی۔ 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی صلاحیتوں اور فن کی دھوم مچ گئی تھی۔ انھوں نے تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

رفیع پیر پاکستان کے ایسے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی علمی و ادبی حلقوں اور فن و ثقافت کی دنیا کے بڑے ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے فن کی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کی یاد میں مختلف پروگرام پیش کیے گئے اور ان کے فن کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

رفیع پیر 1974ء کو آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں