نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
’’وائی کنگز بہت تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتے آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا بولنے لگی۔ ’’لیکن جیسے ہی یہ لوگ روشنی کی اس دیوار سے ٹکرائیں گے، سب کے سب ختم ہو جائیں گے۔‘‘
فیونا کا ہاتھ ابھی تک فضا میں بلند تھا، جس میں موجود مرجان سے نکلنے والی شعاع نے دیوار اٹھا دی تھی، جبران تجسس میں اس کے بہت قریب ہو گیا تو اس کا کندھا فیونا سے ٹکرا گیا، فیونا کو تو جھٹکا لگا ہی، لیکن جبران کو ایسے لگا جیسے کسی تیز برقی آرے نے اسے سَر سے بالکل درمیان میں پیروں تک چیر کر رکھ دیا ہو۔ فیونا بے اختیار چلائی: ’’یہ کیا کر رہے ہو جبران، دور رہو مجھ سے۔‘‘ جبران خود بہ خود ہی دور ہو چکا تھا لیکن اس جھٹکے کے باعث وہ کچھ دیر تک سن کھڑا رہا۔ فیونا کے ہاتھ میں مرجان سورج کی طرح چمکتا رہا۔
وائی کنگز اندھا دھند دوڑے چلے آ رہے تھے، وہ بالکل بے خوف تھے اور راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لا رہے تھے، چناں چہ وہ جیسے روشنی کی دیوار سے ٹکرائے، غائب ہو گئے۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرتے غائب ہوتے رہے۔
’’آہا، دیوار نے کام کر دیا۔‘‘ جبران جو اب تک جھٹکے سے سنبھل چکا تھا، خوش ہو کر بولا۔ اس کے چہرے پر اب خوف کی جگہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ ذرا دیر بعد سب کے سب وائی کنگز کا خاتمہ ہو گیا، تو فیونا نے اطمینان کی سانس لی، اور مرجان کو جیب میں رکھ دیا۔ روشنی کی دیوار بھی خود بہ خود غائب ہو گئی۔ دانیال نے فیونا سے پوچھا کہ اسے روشنی کی دیوار بنانے کا خیال کیسے آیا۔ فیونا نے کہا: ’’پتا نہیں، میرے دماغ میں خود بہ خود خیال آتا ہے اور میں فوراً عمل کر لیتی ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ کنگ کیگان کے جادوگر کے جادو کا اثر ہے۔‘‘
’’مجھے تو یقین نہیں آ رہا ہے فیونا۔‘‘ جبران بولنے لگا: ’’کہ ہم اتنے خطرات کے بعد بھی زندہ ہیں۔ مجھے تو یقین ہو گیا تھا کہ میں ٹرال کا لقمہ بن جاؤں گا۔‘‘
’’چلو، اللہ کا شکر ہے کہ ہم بچ گئے، اب یہ بتاؤ جبران کہ کیا تمھارا موڈ ہو رہا ہے کہ تم اپنی پسندیدہ ڈش پھر کھاؤ۔‘‘ دانیال نے مسکرا کر کہا۔
’’اہو … شرط لگا لو … میں تو تیار ہوں۔‘‘ جبران جھٹ سے بولا۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’پلیز جبران، اب تم یہ مت کہنا کہ پفن جیسا معصوم پرندہ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘
’’نہیں، بالکل نہیں، میں تو کیلا اور پپرونی پیزا کھانا چاہوں گا، جو تم نے پہلے بھی کھایا تھا۔‘‘ جبران نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ دانیال نے ایسے میں جیب سے پمفلٹ نکال لیا اور پھر دونوں کو خبردار کیا: ’’ہمیں واپس لے جانے کے لیے کشتی یہاں سے دو گھنٹے بعد روانہ ہو گی۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا کہ اب تین گھنٹے پھر جی متلاتا رہے گا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ اب کے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ سمندر پرسکون ملے گا۔ تینوں بھوکے تھے، ٹاؤن کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ریستوران میں برگر اور پیزا کھا کر پیٹ بھرے اور بروقت جا کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر واقعی پر سکون رہا۔ دوسری طرف ساحل پر اترنے کے بعد انھوں نے بس پکڑی اور ریکجاوک پہنچ گئے۔
’’میرے خیال میں ہمیں گھر واپس جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’کیا خیال ہے کہ جاتے جاتے نیلی جھیل میں کچھ دیر نہاتے ہوئے جائیں۔ ہم تیراکی کا لباس پھر کرائے پر لے لیں گے۔ اس کے بعد ایک یا دو برگر مزید کھا کر اپنے اپنے گھر ہو لیں گے۔‘‘
’’زبردست …!‘‘ جبران بولا۔ دانیال کو بھی تجویز پسند آئی۔ تینوں اپنے ہوٹل جا کر بل ادا کرنے لگے۔ انھوں نے میگنس کو الوداع کہا تو اس نے حیرت سے کہا: ’’گھر جا رہے ہو؟ میں نے تو تمھارے والدین کو ابھی تک نہیں دیکھا۔‘‘ فیونا کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑنے لگی۔ اس نے میگنس کے جوتوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’کتنے عجیب جوتے ہیں، تم تو بالکل بھتنے کی طرح لگتے ہو۔‘‘ میگنس کو اس کی بات عجیب لگی لیکن اس نے فیونا کی بات کا برا نہیں منایا، اور ان کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ باہر نکلے تو میگنس نے انھیں الوداع کر کے کہا: ’’سچ یہ ہے کہ میں واقعی بھتنا ہوں۔‘‘
یہ سن کر تینوں مسکرانے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ میگنس مذاق کر رہا ہے اور حقیقت میں بھتنے نہیں ہوتے۔ لیکن میگنس نے ایک ہاتھ اٹھا کر اسے ہلکا سا جھٹکا دیا اور ایک شعلہ سا بھڑک کر اس کے سر سے پیروں تک چلا گیا، اور اگلے لمحے اس کے کپڑے تبدیل ہو چکے تھے۔
(جاری ہے)