تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

فیونا، جبران اور دانیال اینگس کے گھر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

’’پتا نہیں اس وقت میری ممی کہاں ہوں گی؟ شاید بیکری میں کام کر رہی ہوں گی۔ میں اس طرح کرتی ہوں کہ پہلے بیکری جا کر دیکھتی ہوں، کیا تم دونوں میرے ساتھ جاؤ گے؟‘‘ فیونا نے دونوں سے پوچھا۔

’’بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھر کو جائیں۔ ٹھیک ہے کہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں صرف چند ہی منٹ کا وقت گزرا ہے لیکن میرا بدن تھکن سے چور ہے۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’اس کے بعد میں ڈائری بھی لکھوں گا۔‘‘

’’میں ڈرائینگ میں ماہر ہوں۔ میں تو ان چیزوں کی تصاویر بناؤں گا جو آج ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔

’’پاپا کو شاید مسٹر تھامسن کے سلسلے میں میری مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’پتا ہے فیونا، تھامسن عجیب قسم کا آدمی ہے۔ انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ٹیبلٹ کیا ہوتی ہے۔ اور تو اور، انھیں یارکشائر پڈنگ کے متعلق بھی کچھ پتا نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انگریز کو یارکشائر پڈنگ کا پتا نہ ہو!‘‘

’’یہ تو بڑی احمقانہ سی بات ہے جبران۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی۔

’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور دانیال کے ہمراہ اپنے گھر کے راستے پر مڑ گیا۔ فیونا سیدھی بیکری جا پہنچی جہاں اس کی ممی پارٹ ٹائم ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بیکری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر ایک ہی شخص تھا۔ فیونا نے پوچھا: ’’ہیلو جناب میکنزی، کیا آج ممی کام کر ہی ہیں؟‘‘

’’ہاں، امید ہے کہ وہ جلد ہی آ جائیں گی۔ آج ایک یا دو گھنٹوں کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور شیشے کے کیس سے ایک تھال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’کیا تم اس کا ذائقہ چکھ کر بتاؤ گی؟‘‘

فیونا نے تھال میں پڑی پیسٹری کو حیرت سے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

’’یہ میں نے پہلی مرتبہ بنائی ہے، اسے بکلاوا کہتے ہیں اور یہ یونانی پیسٹری ہے۔‘‘ میکنزی نے جواب دیا۔ ’’دراصل یہ جدید ترکی کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم فارس میں اس کا آغاز ہوا تھا، لیکن یونان میں بکلاوا کی بے تحاشا اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘

یونان کا ذکر سن کر فیونا چونک اٹھی۔ دل میں کہا کہ یونان کی ہے تو پھر تو ضرور کھاؤں گی، کیوں کہ وہ ابھی ابھی تو یونان سے لوٹی تھی۔ اس نے ایک پیسٹری اٹھا کر کھائی اور بے اختیار بولی: ’’واہ مزے دار ہے، یہ دودھ کے سموسے سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔‘‘

’’یہ دودھ کا سموسہ کیا چیز ہے بھلا؟‘‘ میکنزی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ فیونا ہنس پڑی۔ ’’اسے مِلک پائی کہتے ہیں اور یہ بھی یونانی ہے۔‘‘

’’اوہ … تم تو یونانی ڈشز کے بارے میں بھی جانتی ہو۔ ویسے یہ پیسٹری شہد، فائلو پیسٹری شیٹ، مکھن اور خشک میوؤں سے تیار ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا اگر تم اسے زیادہ کھاؤ گی تو تمھارا وزن بڑھ جائے گا۔‘‘ اس نے فیونا کو دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر خبردار کیا۔

’’اوہ شکریہ میکنزی صاحب، تو میں چلتی ہوں اور گھر ہی پر ممی کا انتظار کرتی ہوں، اور مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ انھیں بلال صاحب کے ہاں جانا تھا۔‘‘

فیونا گھر آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ممی کے اندر آنے کا بھی پتا نہ چلا۔ وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’انکل اینگس کے گھر کا دورہ کیسا رہا؟ تم تو بہت جلد آ گئی ہو۔‘‘

فیونا ممی کی آواز سن کر چونک اٹھی، پھر مسکرا کر بتانے لگی کہ انکل کے گھر کا دورہ دل چسپ رہا۔ ممی نے صوفے سے اٹھ کر چغہ اتارا اور ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اینگس کو آج صبح ایک یا دو دنوں کے لیے کریان لارک جانا تھا، کیا انھوں نے اس کا ذکر کیا؟‘‘

’’نہیں تو … کب واپس آئیں گے وہ؟‘‘ فیونا نے کندھے اچکائے۔

’’غالباً پیر کی صبح، لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ دراصل وہ اپنے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش کرائیں گے وہاں۔ یہ بات ضرور ان کے ذہن سے نکل گئی ہوگی۔‘‘

’’ان کے دماغ سے بہت ساری باتیں نکل جاتی ہیں۔ خیر آپ جبران کے گھر گئی تھیں تو اس کی ممی کو سبزیاں پسند آئیں، اور تھامسن سے ملاقات ہوئی؟‘‘

’’شاہانہ کو میری ساری چیزیں بہت پسند آئیں۔ پتا ہے انھوں نے مجھے اور تمھیں آج رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ فیونا پُر جوش ہو گئی۔

’’ہاں بالکل۔ اور تمھارے لیے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں تھامسن اور ان کا ایک بھائی جیمز بھی ہوں گے، وہ بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘

فیونا نے کہا: ’’جبران کہہ رہا تھا کہ تھامسن ایک عجیب آدمی ہے، انھوں نے یارکشائر پڈنگ تک نہیں سنا۔‘‘

’’مجھے نہیں پتا، میں ابھی ان کے متعلق اتنا نہیں جانتی۔ ویسے میں اپنے ساتھ فروٹ چاٹ لے کر جاؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں، ایک یا دو گھنٹے کام کروں گی۔ کچھ چیزیں خریدوں گی اور پھر تقریباً شام چھ بجے تک پہنچ جاؤں گی، اس لیے تم تیار رہنا۔‘‘

’’ٹھیک ہے ممی، لیکن بکلاوا بھی ضرور لے لینا۔ جبران اسے پسند کرے گا۔ یہ یونانی پیسٹری ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا ذائقہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -