تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

’’ارے انکل آپ ابھی تک ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ آپ سارا دن کرسی پر بیٹھے ہمارا راستہ تکتے رہے! ہم تو سوچ رہے تھے کہ رات ہو گئی ہوگی اور آپ سونے جا چکے ہوں گے۔‘‘ فیونا بولی۔

’’میرے والدین ہمارے لیے پریشان ہوں گے، ہم سارا دن غائب رہے ہیں۔‘‘ جبران کو بھی پریشانی نے گھیر لیا۔

’’یہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اینگس نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ابھی پانچ ہی منٹ تو گزرے ہیں، اور تم لوگ آ بھی گئے۔‘‘

وہ تینوں یہ سن کر اچھل پڑے۔ ان کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں۔ ’’کیسے پانچ منٹ؟‘‘ جبران کے منھ سے نکلا۔ اسے ہرگز یقین نہیں آ رہا تھا۔

’’انکل ہمیں وہاں پورا دن گزرا ہے، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا تھا۔‘‘ دانیال نے کہا لیکن اینگس اس کی طرف نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بھی اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ جبران چونک پڑا تھا کیوں کہ دانیال کی بات صرف وہی سمجھا تھا۔ وہ اردو میں بولا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے دانیال کے جملے کا ترجمہ کیا، تب ان دونوں کی سمجھ میں آیا کہ جزیرے ہائیڈرا پر جب وہ ایک دوسرے کی زبان بہ آسانی سمجھ رہے تھے تو وہ دراصل جادو کی وجہ سے تھا۔

’’یہ ناممکن ہے انکل کہ یہاں گیل ٹے میں ابھی تک صبح ہو، ہمیں تو قیمتی پتھر کے حصول میں واقعی سارا دن گزرا ہے۔ ہمیں بچھوؤں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ عفریت ہائیڈرا اور نکولس سے چھپنا پڑا اور پھر وہ ڈریگن کی آمد….‘‘ فیونا حیرت سے اینگس کی طرف دیکھ کر بتانے لگی اور اینگس نے اطمینان سے چائے کی پیالی اٹھائی اور اس سے گھونٹ بھرا۔

’’دیکھو، میری تو چائے بھی ابھی تک گرم ہے۔ چند منٹ پہلے تم تینوں یہاں کھڑے تھے اور مجھے چائے بناتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اینگس پھر آرام کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ ’’ٹھیک ہے تم لوگوں نے وہاں پورا دن گزارا ہوگا لیکن یہاں گیل ٹے میں صرف چند ہی منٹ گزرے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تو جادو کا معاملہ ہے اور پھر قیمتی پتھروں کی زمین پر وقت بالکل مختلف ہے۔ خیر، تم مجھے بچھوؤں اور ہائیڈرا عفریت کا قصہ سناؤ، یہ کہ کیا واقعات پیش آئے وہاں۔‘‘

’’ہم ایک یونانی جزیرے پر پہنچے تھے….‘‘ جبران بتانے لگا۔ لیکن فیونا نے جلدی سے مداخلت کی اور کہا: ’’اور وہاں ساحل پر ہائیڈرا نامی قصبہ تھا جہاں سارے گھر سفید رنگ کے تھے اور جو پہاڑوں کے نیچے بنائے گئے تھے۔ ہم نے یونانی کھانے کھائے اور وہاں کرسٹوف نامی ایک بدمزاج بیرے سے سامنا ہوا۔‘‘

’’اور ہم نے ایک ڈریگن کو دیکھا۔ وہاں مائع ماربل کا عفریت تھا جس کے نو سانپوں والے سر تھے۔‘‘ جبران نے فوراً مداخلت کی۔

’’ٹھہرو… ٹھہرو…‘‘ اینگس نے جلدی سے انھیں روکا۔ ’’فیونا تم تفصیل کے ساتھ بتاؤ اور تم جبران آخر میں اگر کوئی اضافہ کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرنا۔‘‘

تینوں کرسیوں پر بیٹھے گئے۔ فیونا نے اینگس کو ساری کہانی سنا دی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اینگس آرام کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے، کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر انھوں نے پوچھا: ’’تو اب آبسیڈین پتھر کہاں ہے؟‘‘

فیونا نے قیمتی پتھر جیب سے نکال کر اینگس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ انھوں نے الماری کھول کر جادوئی گولا نکالا۔ ’تو یہ ہے جادوئی گیند، اور یہ ہے بارہ قیمتی پتھروں میں سے سب سے پہلا پتھر۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے گولا میز پر رکھ دیا، اور پتھر کو آنکھ کے قریب لے جا کر غور سے دیکھنے لگے۔ ’’اس کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے، جس کی وجہ سے یہ غیر معمولی بن گیا ہے، تو کیا یہ وہی ڈریگن ہے؟‘‘ انھوں نے پھر پوچھا۔

فیونا نے نوٹ کیا کہ جب اس نے اینگس کو پتھر دیا، یعنی جیسے ہی پتھر اس کے ہاتھوں سے نکلا، تو اس کے اندر ڈریگن میں چمک ختم ہو گئی۔ اس نے کہا: ’’جی یہ ویسا ہی ڈریگن ہے۔‘‘

اینگس نے گھمبیر لہجے میں کہا: ’’ایک پتھر کے اندر کون ڈریگن کا نقش بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے یقیناً انتہائی قسم کی مہارت درکار ہے، جو آج بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

’’یہ غالباً لومنا جادوگر نے بنایا تھا، میرے خیال میں عام شخص ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ کوئی ڈریگن کس طرح زندہ ہو کر آ سکتا ہے، تاہم اس نے ہمیں بچایا تھا۔‘‘

’’یہ غیر معمولی کہانی ہے۔ جادوئی گیند میں بارہ عدد سوراخ ہیں۔ ہر پتھر کے لیے ایک سوراخ۔ جہاں تک میرا خیال ہے جیسا کہ تم سب سے پہلے جزیرہ ہائیڈرا گئے تو یہ آبسیڈین ہی سب سے پہلا قیمتی پتھر ہے۔ اب مجھے آگے کا کام بلاشبہ ایک خاص انداز میں کرنا ہوگا۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ان سب نے گیند پر نگاہیں جما لیں۔ جادوئی گولے میں سوراخ زگ زیگ انداز میں بنائے گئے تھے۔ پہلا سوراخ سب سے اوپر تھا۔ ’’میرے خیال میں یہ قیمتی پتھر اسی سب سے اوپر والے سوراخ کا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا اور پتھر کو اس سوراخ میں جمانے لگے لیکن وہ وہاں بیٹھ نہ سکا۔

’’اوہ شاید یہ کسی اور سوراخ کا پتھر ہے۔‘‘ اینگس نے مزید تین سوراخوں میں اسے بٹھا کر دیکھا اور آخرکار اس نے درست سوراخ ڈھونڈ لیا۔ ’’اب سمجھ گیا، خاص پتھر کے لیے ایک خاص سوراخ ہے۔‘‘

’’ارے دیکھو اسے، یہ ایسے چمک رہا ہے جیسے کوئی کالا سورج چمک رہا ہو۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’ڈریگن بھی پھر سے چمکنے لگا ہے۔‘‘

’’یہ تو بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘ جبران نے منور پتھر پر نگاہیں جما لیں۔

’’بہت ہی شان دار۔‘‘ اینگس واپس آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے۔ ’’ذرا سوچو، جب اس جادوئی گولے پر بارہ کے بارہ پتھر لگ جائیں گے تو یہ کیسا لگے گا؟‘‘

’’ارے میں تو بھول ہی گیا تھا۔‘‘ اچانک جبران اچھل پڑا۔

(جاری ہے….)

Comments

- Advertisement -