نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جمی چونک اٹھا: ’’اوہ، تو تم نے اندازہ لگا لیا ہے۔ آج اس جگہ کو یمن کہتے ہیں لیکن اُس وقت وہ یمن نہیں تھا، وہ کارتھز کہلاتا تھا، یا اس کے کہیں آس پاس۔‘‘ جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ساری کہانی جانتے ہیں، کیوں کہ آپ نے کتاب پڑھ لی ہے۔ دراصل بارتولف اور اس کا بھائی رالفن کارتھز کے قریب ہیڈرومیٹم میں رہتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی ان میں بادشاہ نہیں تھا۔ وہ دولت مند سوداگر تھے اور جہاز رانی کرتے تھے۔ بارتولف کے پاس بے پناہ دولت اور قوت تھی۔ وہ ایک شیطان صفت آدمی تھا اور اپنے نرم دل بھائی رالفن کو بہت پریشان کرتا تھا۔ یہ عین وہ دور تھا جب پونیزی لڑائیوں کی ابتدا ہو رہی تھی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے رالفن نے بھیس بدل کر اپنے خاندان، دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ہیڈرومیٹم کو خیرباد کہہ دیا اور صحرائے عرب کے مشرقی حصے کی طرف ہجرت کر لی۔ یہی وہ جگہ ہے جس کو اب آپ یمن کہتے ہیں۔ رالفن نے وہاں جا کر ایک نئی سلطنت آباد کی اور اسے بورل کا نام دیا۔ وہ وہاں کا بادشاہ بن گیا اور اپنی موت تک امن و سکون اور انصاف کے ساتھ حکومت کرتا رہا۔ دوسری طرف بارتولف کو اپنی غلط حرکتوں کے سبب ایک دن کارتھز سے نکل کر بھاگنا پڑ گیا۔ وہ شمالی افریقہ پہنچا اور وہاں اپنی الگ سلطنت آباد کر لی، جسے اس نے زناد کا نام دیا۔ اس کی حکمرانی کے دور میں خون، ظلم اور شیطانی حرکات کا عروج رہا۔‘‘
جمی سانس لینے کو رکا تو اینگس جلدی سے بولنے لگے: ’’ہنی بال کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس نے خود کشی کر لی۔ رومیوں نے کارتھز کو برباد کر کے رکھ دیا۔ وہاں کی ساری زمین جلا دی گئی اور زمین میں نمک بویا گیا تاکہ پھر کبھی اس میں کوئی چیز نہ اگ سکے۔ اب اس جگہ کو تیونس کہتے ہیں جہاں پانچ صحرائیں پائی جاتی ہیں۔‘‘
جمی اینگس کی بات سن کر افسردہ ہو گیا۔ ’’مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا، ظاہر ہے کہ ہیڈرومیٹم بھی تباہ ہوا ہوگا۔ لیکن خیر، ایک بار جب جادوئی گولا اپنی اصل سرزمین تک پہنچ جائے گا، تو ہیڈرومیٹم پھر سے دودھ اور شہد سے بھر جائے گا۔ اب چوں کہ دوگان نہیں رہا ہے اس لیے ہم پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ اینگس کو ایک بات یاد آ گئی: ’’اور بورل کا کیا ہوا؟ وہاں رالفن کی سلطنت اور اس کے قلعے کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘
جمی نے جواب دیا: ’’وہاں کئی نسلوں نے زندگی گزاری۔ جب آخری بادشاہ کیگان نے بورل کو خیرباد کہا تو اس نے اکثر دولت اپنے لوگوں ہی کے لیے چھوڑ دی۔ تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ بورل کا کیا بنا۔ اتنے عرصے بعد میں اب سوچتا ہوں کہ وہاں دھول اور کھنڈرات کے سوا کچھ بچا بھی ہو گا یا نہیں۔ وہ ایک ایسی سرزمین تھی جو سرسبز تھی، اور ہیروں سے بھری ہوئی تھی۔ ساحل پر ہیرے سمندر سیپیوں کی طرح پڑے ہوتے تھے۔ مچھلیاں بے تحاشا تھیں۔ شہد کی مکھیاں ہمیں نہایت میٹھا عنبریں شہد دیا کرتی تھیں۔ ناریل کے درخت جا بجا اُگے ہوئے تھے اور خوراک کی اتنی کثرت تھی کہ ہرن اور دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ہمیں تیر کمان اٹھانے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔‘‘
اینگس نے کرسی پر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا: ’’بہت دل چسپ کہانی ہے، جاری رکھو اسے۔‘‘
جمی مسکرایا اور بتانے لگا: ’’جو شخص شام کو کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کنگ دوگان کا وارث ہے۔ جس طرح تاریخ نویس آلرائے کیتھمور نے یہ کتاب لکھی تھی، اسی طرح دوگان کے مؤرخ طالون نے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ کتاب ضرور اس شخص کے قبضے میں ہے اور وہ یقیناً جادوئی گولے کے بارے میں جانتا ہے اور یہ بھی کہ گولا آپ کے پاس ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ جیزے آج رات آپ کے پاس یہیں رہے گا، اور جیسے جیسے دوسرے پہنچتے رہیں گے وہ بھی یہیں رہ کر آپ کی، اس کتاب اور گولے کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘‘
جمی چند لمحے ٹھہرا اور پھر گھمبیر لہجے میں بولا: ’’پتا ہے، اگر یہ گولا اس شخص کے ہاتھوں لگا تو وہ کیا کچھ کر سکے گا؟‘‘
(جاری ہے)