نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

فیونا اور باقی افراد انکل اینگس کے گھر پہنچ چکے تھے، اچانک فیونا چونک اٹھی: ’’امی ابھی تک نہیں آئیں، کافی دیر ہو گئی ہے، وہ اتنا وقت کیوں لے رہی ہیں؟‘‘
بات تو پریشانی والی تھی لیکن اس وقت کسی نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا، اور انکل اینگس نے فیونا کو تسلی دی کہ آتی ہی ہوں گی۔ انھوں نے جیب سے کچھ رقم نکالی اور فیونا کو دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ اس بار پیسے سمجھداری کے ساتھ خرچ کرے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ اب فیونا کے پاس جادوئی طاقتیں بھی ہیں، خصوصاً اب وہ سونا اور زیورات اور زمین میں دبی ہوئی دولت تلاش کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اور اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
جبران اور دانیال فرش پر بیٹھے فیونا اور اینگس کی باتیں دل چسپی سن رہے تھے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور کہا ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور فیونا نے منتر پڑھا۔۔۔۔ دالث شفشا ۔۔۔ اور اگلے لمحے وہ روشنی کے چکر میں غائب ہو گئے تھے۔
اینگس نے کہا کہ بچے چلے گئے، میں ذرا مائری کی تلاش میں جاتا ہوں، ان کو آنے میں اتنی دیر نہیں ہونی چاہیے تھی، مجھے امید ہے بچوں کی واپسی سے پہلے ہم دونوں لوٹ آئیں گے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے اور جونی نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔
ان تینوں نے خود کو ایک ایسی جگہ پایا جہاں آس پاس ہریالی تھی، جس کا مطلب تھا کہ بہار کا موسم ہے، جب کہ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیچھے خزاں چھوڑ کر آئے تھے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہیں اس وقت۔ جبران نے موسم کی مناسبت سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر گلوب کے نقشے پر دیکھا جائے تو اس وقت ہم خط استوا کے جنوب میں ہیں لہٰذا ہم یا تو ارجنٹائن میں ہیں، ملاوی میں یا تسمانیہ میں۔
دانیال نے دلیل دی کہ نہ تو وہ ملاوی جیسے چھوٹے جزیرے پر ہیں، نہ ہی افریقہ میں، اس لیے بچتا ہے تسمانیہ یعنی آسٹریلیا کی ریاست۔
فیونا نے آس پاس دیکھا کہ وہاں ازالیا نامی جھاڑی نما درخت تھے، کمیلیا نامی سرخ پھولوں والے پودے تھے، گلاب اور چیری کے بھی تھے۔ جبران نے ان کی توجہ ایک عمارت کی طرف دلائی جس پر لکھا کہ یہ تسمانیہ کا نباتاتی گارڈن ہے۔ اس کے بعد ہی انھیں یقین آیا کہ وہ واقعی تسمانیہ میں ہیں۔
انھوں نے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ لندن سے دس گھنٹے آگے تھے۔تسمانیہ میں صبح کے چار بج رہے تھے اور وہاں ہلکا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پکھراج کی تلاش سے قبل حسب معمول وہ کوئی ہوٹل تلاش کرنے لگے کیوں کہ انھیں کچھ دیر کے لیے نیند لینی تھی۔ فیونا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’پھر ایک ہوٹل کی تلاش!‘‘
جب وہ باغات سے گزر کر شہر کی روشنیوں میں پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تسمانیہ کے دارالحکومت ہوبارٹ میں ہیں۔ انھوں نے سڑک کنارے کچھ ہوٹل دیکھے۔ ایک ہوٹل پر لکھا تھا ’’بارامونڈی بیرک۔‘‘ جبران نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی کیمپ ہو، دعا ہے کہ ہمیں کاٹ کی چارپائیوں پر نہ سونا پڑے۔‘‘
جب وہ اندر گئے تو کاؤنٹر پر فیونا سے عمر میں بس تھوڑی ہی بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ نائٹ منیجر لڑکی نے انھیں دیکھتے ہی کہا: ’’بچے اتنے سویرے کیسے نکل آئے، تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘ وہاں صوفے پڑے ہوئے تھے، فیونا نے باقی دونوں کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نائٹ منیجر کی طرف مڑ کر وضاحت کرنے لگی کہ گاڑی میں تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی ہے، والدین اسے ٹھیک کروا کر ابھی پہنچ ہی جائیں گے، انھوں نے ہمیں بھیجا کہ ہم کمرہ بک کر لیں۔
نائٹ منیجر کا نام اسٹیفنی تھا، اس نے کہا کہ کئی بستروں والا کمرہ چاہیے ہوگا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر انھیں ہوٹل کا سب سے بڑا خالی کمرہ دے دیا گیا۔ کمرہ دوسری منزل پر تھا، تینوں اوپر پہنچ گئے۔ فیونا نے انھیں بتایا کہ اچھی بات یہ ہوئی کہ منیجر نے بغیر کسی سوال کے برطانوی کرنسی قبول کر لی۔ تینوں کمرے میں پہنچ کر الگ الگ بستروں پر ڈھیر ہو گئے۔
(جاری ہے)

Comments