نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر جبران سے بولی: ’’ایک بڑا سا پتھر لے آؤ، اب اسے توڑنے کی باری ہے۔‘‘
دانیال نے آنکھیں پھاڑ کر دو مونہے سمندری خول کو گھورا اور بڑبڑایا: ’’فیونا، کیا تم نے اسی خول سے آکٹوپس کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟‘‘
فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے۔ جبران نے ایک پتھر لا کر فیونا کو تھما دیا۔ فیونا نے صدفہ نوک کی طرف سے ریت میں دھنسا دیا اور اس کے اوپر پتھر مارنے لگی لیکن کئی بار ایسا کرنے پر بھی سخت خول ٹوٹ نہیں پایا۔ خول سے بدبودار پانی کے چھینٹے اڑ کر ان کے ہاتھوں پر لگے۔ جبران اور دانیال خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگے۔
’’کک … کیا یہ زہر ہے … مم … میرے ہاتھ جل نہ جائیں۔‘‘ دانیال خوف کے مارے ہکلانے لگا۔ فیونا نے جھک کر اسے سونگھا اور بتایا کہ یہ زہریلا نہیں ہے بلکہ سمندری پانی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور پتھر جبران کے حوالے کر کے کہا: ’’میں خول کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتی ہو اور تم اس پر پتھر مارو۔‘‘
جبران نے ایسا ہی کیا لیکن اس بار پھر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ فیونا خول کو گھما کر بہ غور دیکھنے لگی، اور پھر کچھ سوچ کر اس کے اندر انگلیاں پھسا کر اس کا اوپری چھلکا زور لگا کر توڑنے لگی۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ یہ ترکیب کارگر ہو رہی ہے، اس کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو گئے تھے لیکن اچانک دانیال گھبرا کر بولا: ’’رک جاؤ فیونا… پلیز رک جاؤ… دیکھو ہمارے پیروں تلے زمین سرکنے لگی ہے۔‘‘
لیکن فیونا نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور سمندری خول کھولنے کی جدوجہد میں لگی رہی۔ جبران بولا: ’’ارے وہ تیسرا پھندہ کیا ہو سکتا ہے؟ یاد ہے نا، ہر قیمتی پتھر کے لیے تین پھندے … جیسے ہی ہم اسے کھولیں گے کوئی خطرناک بات ہو جائے گی۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے ایک بات ہے، اب ہم سمندر میں نہیں ڈوبیں گے اور آکٹوپس بھی یہاں نہیں آ سکتا۔ یہاں ٹرال بھی نہیں ہے اور زلزلے بھی نہیں آئیں گے۔‘‘
دانیال نے فوراً لقمہ دیا: ’’لیکن ہزار پا اور بڑے بڑے حشرات تو آ سکتے ہیں۔ یاد ہے جیکس نے یہی کہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں میں کوئی خوف ناک چیز ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جیسے ہی خول ٹوٹے گا، وہ نکل کر ہمیں ہڑپ کر جائے گی!‘‘ لیکن فیونا نے ہاتھ نہیں روکے اور پوری قوت صرف کر کے آخر کار اس نے خول کھول لیا، جس میں سے ایک بہت ہی چمک دار اور خوب صورت ہیرا برآمد ہوا، جو سمندری پانی کی وجہ سے چپچپا ہو رہا تھا۔ یہ موتی تھا … ایک بہت ہی خوب صورت اور قدیم موتی!
فیونا بے ساختہ بولی: ’’واؤ … اس کی قیمت تو ضرور دس لاکھ پاؤنڈ ہوگی۔‘‘
جبران کی نظریں بھی موتی کا طواف کرنے لگی تھیں جب کہ دانیال کی نظریں آس پاس تیزی سے گھوم رہی تھیں۔ وہ بے حد خوف زدہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب کچھ ہونے والا ہے … بہت ہی خطرناک …!‘‘
اور پھر وہی ہوا جس اسے ڈر تھا!
عین فیونا کے پیچھے اچانک ریتیلی زمین پھٹی اور ایک دل دہلا دینے والا ہاتھ برآمد ہوا۔ اس ہاتھ میں ایک چمکتی تلوار لہرا رہی تھی۔ دانیال دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ یکایک ان دونوں کو بھی احساس ہوا کہ کوئی بری بات ہو گئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگے۔ زمین پھاڑ کر جو ہاتھ باہر نکلا تھا اب وہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ کئی اور ہاتھ بھی قطار در قطار نکل آئے تھے، اور ان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور ہر ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ ایسے میں دانیال جھاڑیوں کی طرف بھاگتے ہوئے چیخا: ’’میں نے کہا تھا نا کہ زمین کے اندر کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
’’ٹھہر جاؤ …‘‘ جبران بھی دوڑ پڑا۔ ’’میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اور خوف سے چلایا: ’’یہ بحری قزاق ہیں۔‘‘
زمین سے نکلنے والے ہاتھ اب محض ہاتھ نہیں رہے تھے بلکہ وہ پورے انسانوں کا روپ اختیار کر چکے تھے، یعنی قدیم بحری ڈاکو اپنی قبروں سے نکل آئے تھے۔ انھوں نے سیاہ و سفید دھاریوں والی شرٹ اور پھٹی ہوئی سیاہ پینٹیں پہنی تھیں، جب کہ سروں پر سرخ رومال بندھے ہوئے اور آنکھوں پر پٹیاں تھیں۔
(جاری ہے۔۔۔)

Comments