بدھ, دسمبر 25, 2024
اشتہار

باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

’’آئس لینڈ میں سورج طلوع ہونے کا منظر ویسے ہی حسین ہے جیسا کہ گیل ٹے میں ہوتا ہے۔‘‘ فیونا نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر تبصرہ کیا، جس کے شیشوں سے سورج کی نرم گرم کرنیں سر ٹکرا کر اندر آنا چاہ رہی تھیں۔ فیونا نے کھڑکی کے پٹ کھول دیے۔

- Advertisement -

’’یہ جگہ تو آرٹسٹوں کے لیے جنت ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ دانیال نے اس کے قریب جا کر کہا۔

’’دانی، یہ جملہ تو تم ہر خوب صورت جگہ کو دیکھ کر استعمال کر سکتے ہو۔‘‘ جبران نے پیچھے سے ہانک لگائی۔ وہ بھی اٹھ گیا تھا لیکن ابھی بستر سے اترا نہیں تھا اور ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔ دانیال نے اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا: ’’دراصل سورج طلوع ہوتے وقت ساری دنیا بہت خوب صورت ہو جاتی ہے۔‘‘

’’جبران اب اتر بھی چکو بستر سے۔‘‘ فیونا نے اس کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’ہمیں ناشتہ کرنا ہے اور اس کے فوراً بعد ویسٹ مین آئس لینڈ کے لیے روانہ ہونا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے بھئی، اترتا ہوں۔‘‘ جبران نے منھ بنایا اور اچھل کر نیچے اترا۔ منھ ہاتھ دھو کر تینوں ناشتے کے لیے نیچے ریستوران میں چلے گئے۔ انھوں نے انڈوں، ڈبل روٹی، پیسٹری اور خشک میوؤں کے ساتھ ناشتا کیا۔ ناشتے کے بعد وہ میگنس سے ہدایات لے کر ہوٹل سے نکل گئے۔ دانیال نے راستے میں میگنس کی ہدایات کو دہرایا: ’’سب سے پہلے تھورلیکشوف کے لیے بس پکڑنی ہے، اور پھر ہیمے پہنچنے کے لیے تین گھنٹے کا سفر ایک کشتی کے ذریعے کرنا پڑے گا۔‘‘

’’تو دوستو، تم سب تیار ہو نئی مہم کے لیے؟ میں نے تو بالکل اچھی طرح نیند کر لی ہے، اور پوری طرح سے تیار ہوں۔‘‘ فیونا نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔ دونوں نے بھی مسکرا کر اپنے تیار ہونے کی اطلاع دی۔ دانیال بولا: ’’لیکن ایک ہلکا سا خوف بھی ہے، کون جانے ہیمے پر ہمارا سامنا کس چیز سے ہو؟ وہ ناگ بھی ہو سکتے ہیں، ابلتا ہوا لاوا بھی یا پھر تیز دانتوں والے عظیم الجثہ وھیل۔‘‘ وہ ایک لمحے کو رکا اور پھر بولا: ’’مجھے تو ہائیڈرا والے دام بالکل پسند نہیں آئے تھے، مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا ایک بار پھر بچھوؤں سے ہو جائے گا۔‘‘

وہ سڑک کنارے کھڑے تھے، اسی وقت ان کی مطلوبہ بس آ کر رکی۔ تینوں چڑھے اور فیونا نے کرایہ ادا کر دیا۔ وہ پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گئے۔ جبران فیونا کے کان میں سرگوشی کرنے لگا: ’’تم نے نوٹ کیا، یہاں بھی کئی لوگ سہنری بالوں والے ہیں اور کئی لوگوں کی آنکھیں تو نیلی بھی ہیں، جیسا کہ میگنس کی۔‘‘ فیونا نے کہا یہ بہت عجیب لگ رہا ہے، ویسے نیلی آنکھیں بہت پیاری لگ رہی ہیں، سیاہ بالوں والے بھی نظر آ رہے ہیں۔ پونا گھنٹہ طویل سفر کے بعد وہ ایک اسٹاپ پر بس سے اتر گئے۔ ان کے سامنے سمندر پھیلا ہوا تھا۔ کنارے پر کشتی کھڑی تھی۔ اچانک جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے ت یرنے لگے۔ اس نے کہا: ’’تو یہ ہے وہ کشتی۔ کیا یہ محفوظ ہوگی؟ میں نے پمفلٹ میں پڑھا تھا کہ یہاں بہت تیز رفتار ہوائیں چلتی ہیں، حتیٰ کہ دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کو بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اور سردیوں میں لہریں اتنی دیو قامت ہو تی ہیں کہ چٹانوں کی چوٹیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔‘‘

(جاری ہے)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں