تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کلوا

منہ پر پسینہ، گالوں پر سرخی، کوٹ کے بٹن کھلے ہوئے۔ قمیض کے دامن اور ہاتھ پر روشنائی کے دھبے، ازار بند پیروں تک لٹکا ہوا، ایک بغل میں کالا بستہ اور دوسری بغل میں کالا کتّے کا پِلا۔

یہ ایک کتّے کی اپنے مالک سے وفاداری، اور محبت میں تڑپنے کی کہانی ہے۔ اس کتّے کو دو مالک ملے جن میں ایک بچّہ ہے منن نامی اور دوسری ایک بچّی جس کا نام چندو ہے۔ کتّے کا نام کلوا ہے یہ ایک موقع پر اپنے نوعمر مالک کو بچانے کے لیے تالاب میں کود جاتا ہے۔ اس افسانے کے خالق رفیق حسین ہیں جو ممبئی کے باسی تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1894 اور وفات کا سال 1944 ہے۔

منن گھر میں داخل ہوا۔ امّاں نے چیخ ماری، ’’اے ہے میں مر گئی۔‘‘ سنگر مشین نے گنگنانا بند کر دیا۔ ماں کا ایک ہاتھ مشین کے ہینڈل پر تھا، دوسرا ماتھے پر، وہ ساکت بچّے کو دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ اور گہری محبت نمایاں تھی۔ لڑکے نے چھوٹے سے گھر میں ایک طرف سے دوسری طرف گردن گھما کر دیکھا اور بھاری آواز بنا کر بولا، ’’امّاں ہم اسے پالیں گے۔‘‘

ماں نے ماتھے سے ہاتھ ہٹا کر پِلّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اسے خدا کے لئے گود سے تو پھینکو۔‘‘ کچھ خفگی کی آواز میں، ’’سارے کپڑے نجس کر لئے پھینکو اسے۔ تمہارے ابّا آتے ہوں گے۔‘‘

لڑکے نے جلدی سے پلّے کو زمین پر رکھ دیا۔ پلّا تین انچ کی دُم ہلا ہلا کر منن کے جوتوں پر لوٹنے لگا۔ ماما نے باورچی خانے سے گردن باہر نکال کر ناک پر انگلی رکھ کر ہنستے ہوئے کہا، ’’ دیکھیے تو موا کیسا پیروں میں لوٹ رہا ہے۔‘‘

ڈیڑھ گھنٹے بعد منن منہ دھوئے، صاف کپڑے پہنے، اجلے بنے، چارپائی پر بیٹھے تھے۔ صرف سیدھے ہاتھ کی انگلیوں پر ہلکی نیلی روشنائی کے نشان ابھی تھے۔ سامنے مراد آبادی تھالی میں دو بسکٹ، تین جلیبیاں اور ایک پیالی دودھ تھا۔ جس پر تین مکھیاں مشغول تھیں۔ وہ خود کتّے کی طرف مشغول تھے۔ کتّے کا پلّا صحن کے دروازے کے سامنے کھٹولے کے پائے میں دھجی سے بندھا ہوا ایک ہڈی میں پوری طرح مشغول تھا۔ ماں نے توریاں چھیلتے ہوئے کہا، ’’اب ناشتہ کر لو۔ یہی تو بات بری ہے۔ مکھیاں بھنکا رہے ہو، دیکھو دودھ میں مکھی گر جائے گی۔‘‘

’’امّاں اس سے ہڈی تو چبتی ہے نہیں۔ بسکٹ دے دوں‘‘، یہ کہا اور لڑکا بسکٹ لے کر اٹھنے لگا۔

ماں نے کہا، ’’چلے پھر چھونے کو۔ ارے تم کھا تو لو، میں اور۔۔۔‘‘ گھر میں آہستہ سے مالکِ خانہ داخل ہوئے۔ سیاہ ٹوپی۔ سیاہ فریم کی عینک۔ سیاہ تکونی ڈاڑھی۔ سیاہ شیروانی۔ سیاہ چھڑی ہاتھ میں اور سیاہ جوتا پیر میں۔ کھٹولے کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔

بیوی سجی ہوئی چائے کے ٹرے میں سے چائے دان لے کر باورچی خانہ کی طرف چلیں۔ لڑکا وہیں دبک کر بیٹھ گیا۔ سر جھکا کر دودھ میں بسکٹ توڑ توڑ کر ڈالنے لگا۔ میاں نے جھنجھلائی آواز میں کہا، ’’یہ کیا ہے جی؟ کون لایا ہے؟‘‘

بیوی چائے دان ہاتھ میں لیے باورچی خانے کے سامنے رک گئیں۔ مسکرا کر بولیں، ’’اے موا ڈیوڑھی میں آ گیا تھا۔ کوں کوں کر رہا تھا۔ دیکھ کر ترس آ گیا۔ کیسا پیارا ہے۔ میں نے باندھ لیا۔‘‘

میاں نے لاحول کو قرأت سے ادا کر کے کہا، ’’ہگے گا تو؟‘‘

’’بھنگن اٹھائے گی۔‘‘

’’موتے گا جو؟‘‘

’’تو لوٹے سے دھویا جائے گا۔ آؤ چائے پی لو۔‘‘

’’بچّے جو چھوئیں گے؟‘‘

بیوی اب باورچی خانہ میں تھیں، اس لئے کوئی جواب نہ ملا۔ منن کا سر البتہ پیالے کی طرف اور جھک گیا۔ میاں نے کمرے میں جا کر اپنے سوا باقی تمام چیزیں ایک ہی کھونٹی پر لٹکا دیں۔ دوسرا قمیص اور پاجامہ پہن کر منہ دھویا۔ تولیہ سے رگڑ رگڑ کر ڈاڑھی کو پونچھا اور چائے پینے کو بیٹھ گئے۔ بیوی پاس بیٹھ کر مکھیاں جھلنے لگیں۔ اب پھر میاں بولے، ’’کیا نجاست پھیلائی ہے پھنکوا دو باہر!‘‘

بیوی نے بگڑ کر کہا، ’’بس تم کو تو ایک بات کی دھن ہو جاتی ہے۔ ہمارا کیا لیتا ہے۔ پڑا ہے بچّے کھیلیں گے۔‘‘

’’ہاں یہ انہی حضرت کا شوق ہوگا؟‘‘

حضرت تینوں جلیبیاں، آدھا بسکٹ اور تھوڑا سا دودھ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے زینے میں گھس چھت پر پہنچ گئے۔

کالا پلّا آٹھ دن اس گھر میں مہمان رہا۔ دو دن صحن میں جہاں دو دفعہ میاں نے گود والی لڑکی کو اسے چھوتے دیکھا۔ پھر پانچ دن ڈیوڑھی میں جہاں ایک دفعہ اس کی رسّی پیروں میں پھنسی اور دوسری دفعہ یہ خود ان کے پیروں میں آ گیا۔ آخری یعنی آٹھویں رات اس کو کوٹھے پر بسر کرنی پڑی۔

دوسرے دن گیارہ بجے پلّا صدائے احتجاج بلند کرتا، حمین بوا (ماما) کے پیچھے گھسٹتا ہوا نخاس کی چوڑی سڑک پر پہنچ گیا اور سڑک کے سپرد کر دیا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک موٹر نے غیں! غیں! کرنا شروع کی۔ ایک بڑے لڑکے نے ہنستے ہوئے لپک کر اسے ایسی ٹھوکر ماری کہ یہ گیند کی طرح لڑھکتا ہوا پکی نالی میں جا گرا۔ موٹر ایک دفعہ اور غیں کر کے چل دیا۔ لیکن کالا پلّا عرصے تک ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا رہا۔

نالی میں کیچڑ اور پانی صرف اتنا ہی تھا کہ اس کے پنجے ڈوبے ہوئے تھے لیکن نالی اس کے واسطے کافی گہری تھی۔ جس میں سے وہ نکل نہ سکتا تھا۔ ایک قصائی کے لڑکے کی اس پر نگاہ پڑی۔ ایک ہاتھ میں بستہ اور بغل میں تختی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں مٹی کی داوات اور سونٹے کا قلم۔ صرف پیر آزاد تھے چنانچہ اس نے ننگا پیر لٹکا کر اس کی مدد کرنا شروع کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں پلّا کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ اتنے میں قصائیوں کے دو لڑکے اور آ گئے۔ کچھ دیر وہ اس کا تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نے جھک کر اس کی رسی کا سرا پکڑ لیا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے اور اس کی رسی کو نالی سے باہر نکال دیا۔

کالے پلّے نے محبت بھری نگاہوں سے اس لڑکے کو دیکھا جو جھکا ہوا اپنے ہاتھ کی کیچڑ سڑک پر پھینک رہا تھا اور اپنے ساتھی کی گالی کے جواب میں گالی برابر لوٹا رہا تھا۔ پِلّا دم ہلاتا ہوا اس کی طرف چلا۔ اب اس نے پلّے کو غور سے دیکھ کر کہا، ’’شیرا ہے شیرا۔‘‘ پھر اس نے رسی کے سرے کو پیر سے زمین پر رگڑا اور اٹھا لیا۔ ’’آؤ شیرا آؤ!‘‘ کر کے رسی تانی، شیرا نے تین چار پھدکیاں اس کی طرف بھریں۔

اب لڑکا بھاگنے لگا۔ دو چار قدم شیرا نے ساتھ دیا، پھر گھسٹنے لگا۔ جب پیر چھلنے لگے تو پیں پیں کر کے چت ہو کر ہی گھسٹنا بہتر سمجھا۔ باقی دونوں لڑکے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ گلی کے نکڑ پر مونڈھا بچھائے پہلوان بیٹھے تھے۔ انھوں نے لونڈوں کو ڈانٹ بتائی، ’’ارے تمہارا ایسا ویسا لونڈو کیا کرتے ہو۔ چھوڑ دو پلّے کو۔‘‘ لونڈے پلّے کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ تین انچ کی دُم ٹانگوں میں دبائے سر زمین سے لگائے پہلوان کی طرف بڑھا۔ پہلوان نے پیر سے دو تین دفعہ اسے لڑھکا کے گلی کے اندر کر دیا اور خود بے فکر ہو کر پھر مونڈھے پر جا بیٹھے۔ وہیں پر چار دکانوں میں کہار رہتے تھے۔ ایک کہاری بیٹھی ہوئی لوہے کی کڑھائی مانجھ رہی تھی۔ پلّا اس کے پاس اسی حالت سے سر زمین سے ملا، دم پیروں کے اندر کوں کوں کرتا گیا۔ کہاری نے کہا، ’’دھو، دھو۔‘‘

ایک تیرہ برس کی دبلی میلی کہاری کی لونڈیا نے برابر کی دکان سے چھلانگ ماری اور پلّے کو اٹھا لیا۔ لیکن فوراً ہی رام رام کہہ کر زمین پر رکھ دیا۔ دونوں ہاتھ دیوار پر رگڑ کر دکان میں گئی۔ ایک لٹیا پانی لائی اور اسے غسل دیا۔ پلّے کا یہ پہلا غسل تھا۔ بہت ناپسند آیا۔ ہر طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ ناک میں بھی پانی چلا گیا، بری طرح چھینکیں آئیں۔ جب غسل ہو چکا تو وہ کانپ رہا تھا۔ لڑکی نے اس کا بدن ایک میلے چیتھڑے سے پونچھا۔ مَٹھے میں بجور کر بجھڑے کی روٹی کھانے کو دی۔ اسی لڑکی نے اس کا نام کلو رکھا۔ لڑکی کا خود نام چندو تھا۔

کلو نے ڈھائی مہینے چندو کے ہاتھ اور پیر چاٹے۔ اس کا یہ زمانہ بڑے عیش میں کٹا۔ لیکن اسی قلیل عرصے میں بھوریا نامی قصائی کے لڑکے نے پہلے تو چندو سے تعشق بڑھایا۔ لیکن جب چندو نے ایک دو مرتبہ بری طرح جھڑک دیا تو پھر اس نے بیر بڑھایا اور اب بھی جب بس نہ چلا تو ایک رات جب یہ لوگ گلی میں سو رہے تھے تو کلوا کو کھٹیا کے پاس سے اٹھا بھاگ گیا۔ بھوریا نے اسے بہت دور بلوچ پورہ کے ایک پرانے قبرستان میں لے جاکر قبروں کے بیچ میں ایک بیری سے باندھ دیا۔

کلوا دن بھر اسی بیری کے نیچے بھوکا پیاسا بندھا ہوا چندو کی یاد میں پڑا رہا۔ دن بھر کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ دور کچھ عورتوں اور بچوں کے بولنے کی آوازیں آیا کیں، لیکن اس طرف ایک قبر کے لمبے چوڑے تکیہ نے آڑ کر رکھی تھی۔ شام کو جب اندھیرا ہونے لگا تو اسی طرف سے کلوا کی تیز ناک نے بھنتے ہوئے گوشت کی خوشبو محسوس کی۔ صبر پر جبر نہ ہو سکا۔ ایک مہین اور لمبی چیخ نکل گئی۔ جب تھوری دیر بعد ایک عورت اس کے پاس آئی تو کلوا ڈر کے مارے چت لیٹ گیا۔ دم پیروں میں سکیڑ لی۔ زبان گو پیاس سے لٹکی پڑتی تھی لیکن جلدی جلدی اندر سمیٹ ہلکے ہلکے کوں کوں کرنے لگا۔ عورت نے اسے کھولا اور لے چلی۔ کلوا خاموشی سے ساتھ ہو لیا۔ قبرستان کے دوسرے سرے پر دو مختلف قسم کے مکان تھے۔ ایک کوٹھری اور ایک مقبرہ۔ ان ہی دونوں میں اِن لوگوں کی رہائش تھی۔

وہاں ایک بکری بندھی تھی۔ چار کھٹیاں ایک لائن میں پڑی تھیں۔ ایک عورت اور چھ بچے چٹائی پر بیٹھے تھے۔ گیسو دراز فقیر صاحب مقبرہ کے چبوترے پر اکڑوں میٹھے گانجے کے دم لگا رہے تھے۔ عورت نے اس کو بھی اسی کھونٹی سے باندھ دیا جس سے کہ بکری بندھی تھی۔ اس نے جاتے ہی بکری کے کونڈے میں سے پانی چاٹا۔ بکری کو اس دوہری ہتک عزت پر غصہ آ گیا۔ اس نے تین چار دفعہ کھریاں جوڑ کر اور سینگ کی نوکیں کلوا کی طرف کر کے حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن کلوا نے ظاہراً اس کی طرف دیکھا بھی نہیں، وہ اطمینان سے دونوں اگلے پیر آگے پھیلا کر اور پچھلے سمیٹ کر اس چٹائی کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جب اس چٹائی پر کھانا ہونے لگا تو اس کی ہم کھونٹا بکری نے بھی جگالی شروع کر دی۔ پہلی بوٹی جب کلوا کے پاس آکر گری تو اس نے اپنی دم کو شکریہ کے واسطے دو دفعہ زمین پر مارا۔ تہذیب سے وہیں پر بیٹھے بیٹھے گردن لمبی کرکے سر بڑھا کر بوٹی کو اٹھا لیا۔

چونکہ بوٹی مزے دار تھی۔ دو ہی دانت مار کر نگل لی۔ زبان سے ناک اور ہونٹوں کو چاٹ کر صاف کر لیا اور پھر انتظار کرنے لگا۔ دوسری بوٹی ہوا میں اڑی۔ ان کے پھیلے ہوئے پیروں کے بیچ میں گردن کے نیچے آکر رک گئی۔ دُم کو تین جھٹکے شکریہ کے دے کر کلوا کھڑا ہو گیا۔ بوٹی نرم تھی، ویسے ہی نگل گیا۔ پھر جو ایک ہڈی اچھلی تو بکری کے پاس گری۔ یہ جو اس طرف بڑھا تو بکری چونک پڑی۔ فوراً سر نیچا کر کے سینگوں کی نوکیں پیش کر، کھریاں جوڑ حملہ آور ہوئی۔ معاملہ ہڈی کا تھا۔ معمولی بات نہ تھی۔ کلوا نے جواب دیا۔ ’ہڈی‘ اور پھر ’ہم ہم‘ کر کے دو جھوٹے حملے کئے۔ بکری صاحبہ ڈر گئیں۔ اب جو بھاگیں تو رسی کو بھول گئیں۔ بس بھاگ پڑیں۔ رسی تنی جھٹکا سا کھایا۔ دھم سے زمین پر دراز ہو گئیں۔ کلوا کی جانے بلا۔ ہڈی اٹھا دوسری طرف چل دیے۔ جب رسی تن گئی بیٹھ کر مزے لینے لگے۔ گیسو دراز صاحب نے اٹھ کر ایک رسی کے ٹکڑے سے کلوا کو بڑی مار ماری۔

سات دن کلوا کو قبرستان میں پیٹ بھر مار اور آدھے پیٹ کھانے پر گزر کرنی پڑی۔ ایک رات خیال آیا کہ اگر دانتوں کو رسی پر ورزش دی جائے تو کیا ہرج ہے۔ چنانچہ ایک گھنٹے کی متواتر محنت کے بعد ایک عجیب نتیجہ یہ ہوا کہ کلوا آزاد تھے۔

جاتے جاتے پکی سڑک پر ہو لیا۔ عیش باغ کے سامنے پولیس کی چوکی پر پہنچا ایک موٹے کتّے نے لیٹے لیٹے غرا کر کہا، ’’بھوں۔‘‘ کلوا نے دُم دبائی اور ایک سپاٹا بھرا۔ ایسے ہی چلا جا رہا تھا کہ ایک ہڈی کی بُو پائی۔ ٹھٹک کر رہ گیا۔ ناک زمین پر سوں سوں کر کے فوراً ڈھونڈھ لی۔ دیکھا تو کچھ حصّہ اس میں کام کا تھا۔ کھایا اور پھر چل دیا۔ آر۔ کے ریلوے کی چوکی آ گئی۔ ایک بوچے کتّے نے لپک کر ان کا راستہ روکا، لاچار کلوا نے اطاعت قبول کی، چت لیٹ گیا۔

دو مہینے کلوا نے بوچا کی اطاعت میں عیش باغ اسٹیشن سے آغا میر کی ڈیوڑھی تک آر۔ کے لائن کے اوپر چکر لگائے۔ یہی بوچا کے دانتوں اور پنجوں کے زور سے حاصل کردہ جائیداد تھی۔ کلوا نے بار بار چندو کی یاد میں اس جائیداد کو چھوڑ کر دور کے سفر کے قصد کیے۔ لیکن ہر دفعہ اس کو ناکام واپس آنا پڑا۔ کیونکہ زمین کا چپہ چپہ کتوں کی جائیدادوں میں تقسیم ہوا پڑا تھا جس پر غیر کا قدم رکھنا کتّوں کے قانون میں سخت جرم ہے۔ ان ناکام کوششوں سے اسے ایک فائدہ ضرور ہوا۔ زخم کھا کھا کر اس کا جسم پکا پڑ گیا اور آدابِ جنگ کی تمام باریکیوں سے واقف ہو گیا۔

ایک روز کلوا تنہا آغا میر کی ڈیوڑھی کی طرف سے واپس آ رہے تھے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ریلوے کراسنگ سے کچھ دور بوچا استاد کی لاش لائن پر کٹی پڑی ہے، استانی پریشان کھڑی اس کو سونگھ رہی ہے۔ کیا کر سکتے تھے سوائے ہمدردی کے۔ خود بھی سونگھا۔ پاس کھڑے ہو کر استانی کا غم غلط کیا۔ وراثتاً جائیداد کے مالک تھے اس کا انتظام ہاتھ میں لیا۔ اب یہ تنہا رہ گئے۔ اکیلے کھانے والے اور اکیلی جائیداد کی حفاظت کرنے والے۔ پیٹ بھر ورزش تھی، پیٹ بھر خوراک۔ ایک مہینہ جو اور گزرا تو اب کلوا کی شان ہی نرالی تھی۔ سیاہ چمکدار مخملی کوٹ، لہراتی ہوئی لمبی دُم، گٹھا ہوا بھاری تھوتھنا۔ ہاتھ اور پیروں پر ابھرے ہوئے پٹھے۔ بل کھائے ہوئے۔ قد میں بھی بڑے سے بڑا کتّا ان کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چور اور آوارہ گرد کتّوں کا ان کو دیکھ دم نکلتا تھا۔ اس عرصے میں اس نے اپنی جائیداد کو بھی اور وسعت دے لی تھی، آغا میر کی ڈیوڑھی کے پلیٹ فارم کی اپنی طرف کی آدھی لمبائی تک قبضہ بڑھا لیا تھا۔ اس پلیٹ فارم پر ایک جگہ ایک بُو تھی…. کلوا کا محبت کا بھوکا دل تڑپ گیا۔ یہیں چندو بیٹھی تھی۔

کلوا اس جگہ کو سونگھے اور منہ اونچا کر کے خاموش کھڑا ہو جائے۔ قدرت نے آنسو نہ دیے تھے کہ جاری ہوتے۔ بہت دیر تک یہی کیا۔ پھر ایک دفعہ دُم آسمان کی طرف اور ناک زمین پر، یہ روانہ ہو گیا۔ سیکڑوں ہزاروں طرح کی بوؤں میں چندو کی بو اس کے واسطے الگ تھی۔ بُو لیتا چل دیا۔ بیسیوں کتّوں کو زخمی کر کے خود زخموں سے چور جس وقت وہاں پہنچا رات کا ایک بج چکا تھا۔

گلی وہی تھی، مکان وہی تھا۔ دکان وہی تھی مگر بند تھی۔ اب لوگ اس کے اندر سو رہے تھے۔ دروازے سونگھے۔ چندو کے ماں اور باپ دونوں کی بوئیں تازہ تھیں مگر چندو کی بُو بہت خفیف تھی، کتّے آتے اس پر بھونک کر چلے جاتے۔ مگر یہ وہیں بیٹھا رہا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد چندو کی بو سونگھتا رہا جو برابر زائل ہوتی چلی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ صبح چار بجے چندو کی بُو گم ہو گئی۔ اس نے دکان کے سامنے منہ اٹھا کر رونا شروع کر دیا۔ کاش کوئی انسان اس کو یہ بتا دیتا کہ چندو اپنے دلھا کے ساتھ دولہن بن کر بانس بریلی گئی۔ مگر کون بتاتا۔ دن رات کا زیادہ تر حصّہ یہ چندو کی دکان کے آگے ہی گزارتا۔ جہاں اب اس کا پہچاننے والا کوئی نہ تھا۔ کلوا چندو کے باپ اور ماں دونوں کی برابر مار کھاتا رہا۔ لیکن اس نے دکان کا دامن نہ چھوڑا۔ ایک برس اسی طرح گزر گیا۔ مگر آخر چندو آ ہی گئی۔

بالکل وہی… چندو کچھ دبلی اور ہو گئی تھی۔ بچّہ گود میں تھا۔ لیکن کلوا کو بھول چکی تھی۔ وہ کلوا سے ڈر گئی۔ انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ لیکن کلوا کتّا تھا زمین پر بچھ گیا۔ پیٹ کے بَل زبان نکال کر پیر چاٹنے کو آگے بڑھا۔ پیر نہ ملے تو زمین چاٹی۔ کہاری کی جوتیاں جب پڑیں لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ کہار نے ڈنڈے جب مارے تو سمٹ سمٹ کر چلّایا۔ لیکن سب لاحاصل۔ اس بڑی چکّی کے دونوں پاٹوں میں پتّھر کم پستے ہیں اور دل زیادہ۔ آٹھویں دن چندو پھر سسرال چلی گئی۔

آج کالا کتّا غیظ و غضب کی تصویر بنا ہوا آوارہ گرد ہے۔ کتّے اس کو دیکھ کر ڈرتے ہیں۔ سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔ سیاہ منہ پر آنکھیں لال انگارہ ہیں۔ موٹی گردن پر بال کھڑے ہیں اور دم بالکل سیدھی پھیلی ہوئی ہے۔

اور آج ہی وہی پیارا بچہ منن، باپ کی بے جا سختی اور ماں کی اندھی محبت کے باعث آوارہ ہے۔ اسکول میں جھڑکیاں اٹھانے اور مار کھانے کے بجائے آج کے دن اس نے سونی عید گاہ میں آزادی کی عید منائی ہے۔ اب چار بج چکے تھے۔ منن عید گاہ کی چار فٹ اونچی دیوار پر بیٹھا سوچ میں تھا۔ دن تو گزر گیا، اب کیا کرے؟ گھر جائے نہ جائے، وہاں خبر ضرور ہو گئی ہو گی۔ ننھے سے دل میں وحشت کے پنکھے چل رہے تھے۔ وارفتہ دل، صحرا نورد کلوا کا گزر ادھر سے ہوا۔ اس کی نگاہ بچّے پڑی۔

انسانوں کے واسطے راتیں تاریک ہوتی ہیں لیکن کتّوں کے لئے ان میں سہانی روشنی ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانوں کے واسطے صورتیں… آنکھ، ناک کان اور منہ کا صرف مجموعہ ہوتی ہیں۔ لیکن کتّوں کے لئے ان پر خوشی کی چمک، غم کی سیاہی اور محبت کی ارغوانی شعاعیں بھی عیاں ہوتی ہے۔ کلوا نے دیکھا کہ بچّہ اداس بیٹھا ہے لیکن وہ اپنی دھن میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ دیوار کے نیچے جہاں جہاں وہ جا رہا تھا بچّے کی بُو رَواں دواں تھی۔ اس نے اس بو میں کچھ خصوصیت محسوس کی۔

خیال اور خیالوں کے تحت واقعات کی یادداشت اس کو قدرت نے عطا کی ہی نہ تھی۔ نہ رہا گیا، گھوم کر بچّے کو دیکھنے لگا۔

جفا کاری میں بھینسا کتّے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ استقلال میں پتھر کی سل کتّے کے آگے گھس جائے گی۔ خوں خواری اور دلیری میں جس وقت کتّے سے مقابلہ پڑتا ہے تو شیر بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لیکن محبت کی ایک چھوٹی سی چمکاری میں کتّا پیروں پر گرتا ہے اور اس وقت وہ حلم اور عاجزی، انکساری اور خاکساری ایسی رقیق چیزوں کی جیتی جاگتی تصویر ہوتا ہے۔

منن اور کلوا میں ایک دفعہ پھر نئے سرے سے دوستی شروع ہوئی۔ منن کھیلتا کھیلتا کتّے کو ڈھیلوں کے پیچھے بھگاتا قدرتاً گھر کی طرف آگیا۔ یہ بھی تو امید تھی کہ گھر میں اسکول سے بھاگنے کی خبر نہ پہنچی ہو ڈرتے ڈرتے گھر میں گھسا۔ کلوا باہر ہی رہ گیا۔

محبت کی دیوانی ماں نے منہ دھلایا، ناشتہ کھلایا۔ اکنی کنکیا کے واسطے دی۔ دو پیسے کی برف کی قلفی لے دی۔ دو دفعہ باپ کے بے جا غصے اور منن کے بیچ میں سدِ سکندری بن کے حائل ہو گئی۔ یہاں تک کہ رات ہو گئی اور منن سو گیا۔

چھ دن کلوا نے استقلال سے بیٹھے بیٹھے اسکول کے سب تماشے دیکھے۔ ساتویں دن ضبط برداشت سے باہر گیا۔ سیاہ پینتیس سیر کا جسم ایک جست سے دروازے سے باہر نکلا اور ماسٹر سے تصادم ہوا۔ ماسٹر زمین پر گر پڑا۔ کلوا اس کے سینے پر سوار ہو گیا۔ روتے ہوئے منن نے جلدی جلدی کتابیں اور بستہ سمیٹا اور سیدھا اسکول سے باہر بھاگا۔ سڑک پر جا کر ’’آؤ، آؤ۔‘‘ کی آوازیں لگائیں اور دوڑ پڑا۔ تھوڑی دیر میں خون آلود کان کو جھٹکتا ہوا کلوا بھی منن سے آن ملا۔ سر اٹھا کر منن کا منہ چاٹنا چاہا تو اس نے سر پر سلیٹ ماری۔ کلوا خوش ہو گئے۔ اچھل کے آگے آگے ہو لئے۔

دوسرے دن بستہ بغل میں لے کر منن نے پھر عید گاہ کا رخ کیا۔ کلوا کو اس سے کیا مطلب تھا۔ جدھر وہ چلا اس کے پیچھے ہو لیا۔ واٹر ورکس کی دیوار کے نیچے پہنچ کر باہر لٹکی ہوئی املی کی شاخوں کے سائے میں دونوں بیٹھے۔

تیسرے دن شام کو جب آوارہ گردی کے مکتب سے منن گھر واپس ہوا تو اس نے دیکھا کہ مکان کے آگے اسکول کے تین لڑکے اور ایک ماسٹر کھڑے ہیں۔ باپ دروازے پر کھڑے ان سے باتیں کر رہے ہیں۔ سر سے پیر تک کانپ گیا اور فوراً واپس لوٹ پڑا۔ پھر عید گاہ پہنچا، وہاں پھرتے پھرتے جب شام ہونے لگی تو قدم گھر کی طرف خود بخود اٹھنے لگے۔ واٹر ورکس کی دیوار پر چڑھا۔ اندر بالکل سنسان تھا۔ تھوڑی دور پکے تالاب تھے۔ دیوار سے کود کر ان کے کنارے پہنچا۔ کلوا بھی کود پھاند کے ساتھ تھا۔ تالاب کے چاروں طرف پکی دیوار تھی۔ جس سے ڈیڑھ فٹ کے نیچے شفاف پانی میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ منن اپنی فکریں بھول گئے۔ کنارے اکڑوں بیٹھ کر مچھلیوں کی سیر میں محو ہو گئے۔ ایک مچھلی دیوار کی جڑ تک آ گئی۔ منن نے جھک کر اسے پکڑنا چاہا۔ پوری جان سے اندر لڑھک گیا۔

کلوا کچھ دور تھا۔ اس کی ہلکی سی چیخ نکلی اور وہیں سے اس نے پانی میں جست ماری۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ پاس پہونچے۔ بچّہ پانی کی تلی کی طرف روانہ تھا۔ پانی بہت گہرا تھا۔ کئی منٹ کے بعد بچّے نے اچھالا کھایا۔ کلوا کے دھوکا نہ کھانے والے احساس نے اسے بتا دیا کہ بچّہ کس جگہ ابھرے گا۔ وہیں پر موجود تھا۔ کلوا نے ڈھال کی طرح اپنا جسم بچّے کے سینے کے نیچے کر دیا۔ بچّے کے پیٹ میں کافی پانی جا چکا تھا۔ وہ قریب قریب بے ہوش تھا۔ لیکن قدرتاً اس کا ایک ہاتھ کتّے کی گردن میں اور دوسرا ہاتھ پچھلے پیروں میں لپٹ گیا۔

افق کی سرخی گہری پڑتے پڑتے سیاہی میں تبدیل ہو گئی۔ رات بڑھتی چلی گئی۔ اب کلوا کا بھی پیٹ پھول چکا تھا۔ جسم میں طاقت نہ تھی۔ یا اپنی ناک سے پانی باہر رکھ سکتا تھا یا بچّے کی۔ دل میں طاقت وہی باقی تھی۔ مالک کی ناک اوپر رہی اور تھکی ہوئی گردن نیچے جھک گئی۔ صبح کو کچھ لوگ جمع ہوئے۔ سسکتے ہوئے بچّے کو نکال کر میڈیکل کالج کی طرف دوڑے۔ کلوا کی پھولی ہوئی لاش وہیں چھوڑی۔ جس کو تھوری دیر بعد دو بھنگیوں نے نکال کر احاطہ سے باہر میدان میں پھینک دیا۔

تین گدھ فضائے آسمانی سے سنسناتے اترے۔ چھ فٹ کے پھیلے بازو سمیٹ کر آہستہ آہستہ اس لاش کی طرف بڑھنے لگے۔

Comments

- Advertisement -