نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

’’ہم آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے فضا میں اچھل کر بولی۔ ’’اور ہم اس وقت کہاں ہیں، ہمیں نہیں پتا، شین کہاں ہے یہ بھی نہیں پتا، اور ہمارا سامان کہاں ہے، بالکل نہیں پتا!‘‘ وہ تینوں ہنسنے لگے۔

ان کے بیگ دریائے یوکان میں کہیں بہتے ہوئے جا رہے ہوں گے، لیکن انھیں اس کا غم نہیں تھا۔ دانیال سردی سے کانپتے ہوئے بولا: ’’ہم خوب بھیگ چکے ہیں، کہیں سردی سے برف نہ بن جائیں۔‘‘ جبران برف کی ایک چٹان پر چڑھ گیا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’شکر ہے سورج ابھی تک موجود ہے، ورنہ ہم قلفی کی طرح جم جاتے۔ اور یہ دیکھو، انکل اینگس کا کیمرہ ابھی تک میرے گلے میں موجود ہے، واؤ۔‘‘

ان دونوں کے برعکس دانیال کا برا حال تھا۔ وہ ایک جوہڑ میں گرنے کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت ہو چکا تھا۔ وہ بار بار بالوں سے کیچڑ نکال نکال کر جھٹک رہا تھا۔ ’’پانی کی یہ سواری تو میرے لیے بہت ناگوار ثابت ہوئی۔‘‘

ایسے میں جبران کو کرسٹل یاد آ گئی۔ اس نے کہا شاید ننھی پری بھی پانی میں بہہ کر غرق ہو گئی ہے۔ لیکن فیونا اچھل کر بولی: ’’وہ زندہ ہے، وہ رہی گلیشیئر کے پاس سے روشنی کی ایک کرن اڑ کر آ رہی ہے۔‘‘

جب وہ قریب آئی تو جبران نے اپنی ہتھیلی آگے کر پھیلا دی۔ ’’تمھیں زندہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ جبران نے کہا اور کرسٹل اس کی ہتھیلی پر اتر گئی۔

’’تم لوگوں کی طرح میں بھی آزاد ہو گئی ہوں۔‘‘ وہ گہری سانس لے کر بولی۔ ’’اگرچہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی، میں زمرد کی حفاظت نہ کر سکی، میں تو بالکل ہی بھول گئی ہوں کہ باہر کی یہ دنیا کیسے لگتی ہے۔ میری دنیا تو برف تک محدود ہو گئی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ دنیا میں ہر چیز برف کی ہوتی ہوگی۔‘‘

فیونا کہنے لگی: ’’کرسٹل تم ناکام نہیں ہوئی ہو، ہمیں زمرد کے حصول ہی کے لیے بھیجا گیا ہے اور ہم اچھے لوگ ہیں۔ پتا ہے ابھی کچھ دیر بعد ہم اس شخص سے ملاقات کریں گے جس نے تمھیں زمرد کی حفاظت پر مامور کیا تھا۔ میرا خیال ہے اگر تم اپنے لوگوں سے جا ملو تو وہ شخص بہت خوش ہوگا۔ تم برف کی شہزادی ہو اور سچ میں شہزادیوں کی طرح لگتی ہو۔ اب تم گلیشیئر کی چوٹی پر چلی جاؤ، مجھے یقین ہے تم اپنے دوستوں کو ڈھونڈ لوگی۔‘‘

سورج کی روشنی میں پری کے پر چمکنے لگے تھے۔ وہ بولی: ’’ان کرنوں میں مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، میں ایک بار پھر پھولوں اور تتلیوں کا نظارہ کر سکوں گی۔‘‘

دانیال ابھی تک اپنے کپڑوں سے کیچڑ جھاڑنے میں لگا ہوا تھا، بولا: ’’کیا تتلیاں بھی تم سے دوستی کرتی ہیں؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں۔ ہم تو بہت اچھے دوست ہیں۔‘‘ کرسٹل بولی: ’’ٹھہرو ذرا، میں تمھاری مدد کرتی ہوں، تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ لیکن ان دونوں سے ذرا دور۔‘‘
’’تم کیا کرنے والی ہو میرے ساتھ۔‘‘ دانیال نے اسے گھور کر دیکھا۔

’’ڈرو نہیں، تم میرا جادو ابھی دیکھ لو گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی ہتھیلی اٹھا کر کھولی۔ اس پر برف کے ننھے ننھے ٹکڑے پڑے تھے اور بالکل قطروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ کرسٹل نے ہتھیلی کو جھٹکا دیا۔ برف کے ننھے ٹکڑے اڑ کر دانیال کے گرد چکر کاٹنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے وہ بھی ان کے ساتھ لٹو کی طرح گھومنے لگا۔ اس کے جسم پر موجود کیچڑ اڑ کر دور گرا اور جب وہ اپنی جگہ ٹھہر گیا تو بالکل صاف ستھرا نظر آنے لگا تھا جیسے اسے کیچڑ لگا ہی نہیں تھا۔ لیکن کچھ دیر تک اسے ایسا لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے۔ وہ ہوا میں ہاتھ پھیلا کر سہارا پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر اس کی حالت بحال ہو گئی۔

(جاری ہے۔۔۔)

Comments