نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

ڈریٹن فیونا کی ممی کو اغوا کر کے قلعے پہنچا تو فوراً سیڑھیوں سے نیچے اتر کر انھیں غار میں لے گیا، اور ایک دیوار کے ساتھ زنجیر سے باندھ دیا۔ پھر وہ سرنگ کے ذریعے دوڑتا ہوا جھیل کے پاس پہنچ گیا اور پہلان جادوگر کو آوازیں دینے لگا۔ پہلان نے اسے بار بار آ کر پریشان نہ کرنے کا کہنا تھا لیکن وہ یہ بتانے کے لیے بے چین ہو رہا تھا کہ وہ مائری کا ’تحفہ‘ لے کر آیا ہے۔

جھیل کی سطح لرز اٹھی اور لہروں میں اچھال پیدا ہو گیا، ڈریٹن نے دیکھا کہ جھیل کے پانی کا ایک مینار سا اوپر کی جانب اٹھا اور اس کی سماعت سے تیز آواز ٹکرائی: ’’اب کیا کہنے آئے ہو؟‘‘
ڈریٹن نے بولا: ’’غار میں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے، آؤ دیکھو۔‘‘
جادوگر پہلان پانی سے نکلا اور ڈریٹن کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ سرنگ کے ذریعے غار میں پہنچ گئے۔ پہلان نے مائری کو بندھا دیکھا تو حیران ہو گیا، ان کا چہرہ پائی سے گندا ہو رہا ہے۔ وہ پہلان کو دیکھتے ہی بول اٹھیں: ’’تم کون ہو؟‘‘
ڈریٹن نے بتایا کہ یہ پہلان ہے، کنگ دوگان کا جادوگر۔ پہلان کو اس پر غصہ آ گیا: ’’میں اپنا جواب خود دے سکتا ہوں احمق۔‘‘ پھر وہ مائری کی طرف متوجہ ہوا، اور کیگ کیگان کے اولاد کی یہاں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ پھر وہ مائری کو ایک بڑے سانپ کا روپ دھار کر بچوں کی طرح ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔ دیکھنے میں یہ بھیانک اژدہا لگ رہا تھا جو کانٹے دار سرخ زبان باہر نکال کر مائری کی طرف رینگنے لگا، اس کی خوف ناک آنکھوں کی کشش بے پناہ بڑھ گئی تھی۔ مائری نے چیخ کر کہا: ’’مجھے سانپوں سے نفرت ہے، دور ہو جاؤ مجھ سے۔‘‘
سانپ دھیرے دھیرے ہوا میں بلند ہو گیا جیسے مائری پر جھپٹنے والا ہو، پھر وہ کنڈلی مار کر رقص سا کرنے لگا۔ ڈریٹن کو خود سانپوں سے نفرت تھی اس لیے وہ دور ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اچانک سانپ نے جھپٹ کر مائری کے گلے میں اپنے دانت گاڑ دیے اور وہاں سے خون کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ مائری کے حلق سے نکلنے والی چیخ گلے ہی میں دب گئی۔ اس کے منھ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ سانپ ان سے دور ہٹ گیا اور مائری نے اچانک آنکھیں کھول لیں۔ ان کے کانوں سے جادوگر پہلان کا قہقہہ ٹکرایا: ’’ہاہا… ہاہا… ہاہاہا، میں نے تمھیں بے وقوف بنا دیا۔ مائری جلدی سے گلے پر ہاتھ پھیر کر دیکھنے لگیں کہ کیا سچ میں وہ زخمی نہیں ہوئی ہیں۔ حقیقت جان کر انھیں اطمینان ہو گیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ کرخت لہجے میں بولنے لگیں: ’’تم لوگ کس قسم کے بیمار ذہن لوگ ہو، دوسروں کو خوف زدہ کر کے خوشی حاصل کرتے ہو، اور جادو کر کے خود کو طاقت ور محسوس کرتے ہو… افسوس ہے تم پر!‘‘
ڈریٹن چلا کر بولا: ’’منھ بند رکھو عورت، اگر خیریت چاہتی ہو منھ بند رکھو سمجھی!‘‘ اچانک وہاں موجود سانپ غائب ہو گیا اور جادوگر پھر نمودار ہوا۔ اس نے مائری سے کہا کہ وہ اپنے باپ دادا کی طرح نڈر بننے کی کوشش کر رہی ہے، ایک آگ ہے وجود کے اندر، تو چلو ڈریگن بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈریٹن نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’اب یہ تمھیں زندہ بھوننے والا ہے مائری، سنبھل جاؤ۔‘‘
پہلان نے ڈریگن بن کر غار کی چھت کی طرف منھ کر کے بھیانک آواز نکالی اور پھر اس سے آگ کے شعلے برآمد ہوئے۔ غار میں ایک دم کالا دھواں پیدا ہوا جو مائری کے حلق میں چلا گیا اور وہ کھانسنے لگیں۔ جب دھواں چھٹ گیا تو اچانک ڈریگن نے منھ مائری کی طرف کر کے کھولا اور آگ کے ایک دریا نے ان کے جسم کو لپیٹ میں لے لیا۔ ڈریٹن خوف زدہ ہو کر دیکھنے لگا کہ مائری کا بدن جل کر سیاہ ہو گیا ہے، اور مائری کے حلق سے اذیت سے بھری چیخیں نکل رہی ہیں۔ خوف کے مارے ڈریٹن کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے تھے، اور اچانک اسے الٹی آ گئی۔ الٹی کر کے جیسے ہی وہ سیدھا ہو گیا مائری کو وہاں سلامت موجود پایا۔
مائری نے سرگوشی جیسی آواز میں کہا: ’’تم قابل نفرت ہو، شیطان ہو، میں تمھاری موت کا انتظار کروں گی۔‘‘ پہلان جادوگر واپس اپنی حالت میں آ گیا تھا، اس نے غصے سے ڈریٹن سے کہا لے جاؤ اس عورت کو جھیل پر اور اسے وہاں کی بھیانک مخلوق کی خوراک بنا دو، یاد رکھنا اسے زندہ نہیں بچنا چاہیے۔‘‘
ڈریٹن اچھلا اور بولا کہ کیا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پہلان نے کہا کہ ان کے پاس فیونا موجود ہے تو اس کی ممی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور مائری پر کچھ دیر کے لیے جو نیند سی طاری ہوئی تھی وہ اس سے جاگ اٹھیں۔ مائری نے ڈریٹن کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم بھی بہت برے ہو ڈریٹن لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس جادوگر کی طرح پھر بھی نہیں ہو، تمھارے اندر امید کا دیا روش ہو سکتا ہے۔ اس لیے تم پہلان جادوگر کو بھول جاؤ اور ہمارے آ ملو، ہم تمھیں آگے آنے والے حالات سے بچائیں گے۔‘‘
ڈریٹن نے مائری کی بات خاموشی سے سنی اور پھر غرا کر بولا: ’’تمھیں کیا پتا کہ میں پہلان سے بھی بدتر ہوں، اب میں تمھیں کھولنے جا رہا ہوں، اگر کوئی مضحکہ خیز کوشش کی تو یہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ جادوگر کو سن لیا ہے نا ہمیں اب تمھاری مزید ضرورت نہیں ہے۔‘‘
زنجیریں ڈھیلی ہونے کے بعد مائری کو کچھ بہتر محسوس ہونے لگا، لیکن ان میں لڑنے کی طاقت نہیں تھی، درد نے ان کے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب بھی محسوس کر سکتی تھیں کہ شعلے انھیں جلا رہے ہیں اور سانپ کے دانت ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ ڈریٹن نے جھک کر انھیں اٹھایا اور کندھے پر ڈال کر کشتی تک لا کر اندر پھینک دیا۔
جاری ہے ۔۔۔

Comments