تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

تینوں کے جانے کے بعد اینگس کے چہرے پر ایسے گہرے تاثرات چھا گئے جیسے وہ کوئی بہت اہم بات سوچ رہے ہوں۔ ان کے سامنے جمی اور جیزے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، اور کمرے میں خاموشی تھی۔ یکایک اینگس نے یوں اچانک سر اٹھا کر ہلایا جیسے وہ کوئی اہم فیصلہ کر چکے ہوں۔ چند لمحوں بعد انھوں نے جمی اور جیزے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’جب فیونا اور اس کے دوست واپس آئیں تو انھیں بتانا کہ میں ٹاؤن گیا ہوں۔ اب اس شخص کے بارے میں کھوج لگانے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ گیل ٹے میں اپنی موجودی ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ میں ہوٹلوں اور سرائے میں جا کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کروں گا، اور آپ دونوں یہاں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘ اینگس نے رک کر کہا: ’’مرتبان میں چاکلیٹ بسکٹ بھی موجود ہیں، اطمینان سے مزے لیں، اور ہاں وہ تینوں جلد ہی لوٹ آئیں گے، انھیں یہیں پر روکے رکھیں اور میرے آنے تک جادوئی گولے کو مت چھوئیں۔‘‘

جمی اور جیزے نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا اور اینگس دروازہ کھول کر چلے گئے۔
۔۔۔۔

ڈریٹن چونک اٹھا۔ اس کے گرد مختلف رنگ جھلملانے لگے تھے۔ خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں تو وہ حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑا تھا۔ ڈریٹن خوشی کے مارے بڑبڑانے لگا: ’’زبردست … زبردست … میں یہاں صحیح سلامت پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اس نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے تو اس سے چند نوٹ نکل آئے۔ ’’ہونہہ … یہ تو اس جیسی جگہ کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔‘‘ اس نے سامنے سڑک پر پُر تعیش ہوٹلوں کی قطار پر نگاہ دوڑائی، پھر اپنی بری عادت کے مطابق بولا: ’’کوئی بات نہیں، جو چیز خرید نہیں سکتا، وہ چرا تو سکتا ہوں۔‘‘

اس نے کوٹ اور شرٹ اتار کر پھینک دیے اور جینز اور جوتوں کو رہنے دیا۔اس کے قریب سے ایک جوڑا گزرا، ان کی چمکتی ہوئی جلد کو دیکھ کر ڈریٹن کو اپنا پھیکا رنگ برا لگنے لگا۔ وہ نئے کپڑوں کے لیے کوئی شاپنگ سینٹر ڈھونڈنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے ایک شاپنگ سینٹر مل گیا، اس نے مقامی لباس پسند کر کے چپکے سے اٹھایا اور پھر مہارت کے ساتھ شاپنگ سینٹر سے نکل گیا اور درختوں کے جھنڈ میں واپس جا کر اس نے کپڑے تبدیل کر لیے۔ ایک مرتبہ پھر وہ گلیوں میں نکل آیا اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑبڑانے لگا: ’’ویسے یہ جگہ ہے کون سی؟ اور وہ تین کہاں گئے؟‘‘ اسے ایک ہوٹل نظر آیا تو اس کے قدم اسی طرف اٹھنے لگے۔
(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -