نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اس سے پہلے کہ ان کے قدم دوڑے کے لیے حرکت میں آتے، گلیشیئر کا ایک بہت ٹکڑا ان سے چند قدم کے فاصلے پر دھم سے آ گرا اور وہ تینوں خود کو اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بچا نہیں پائے۔ انھیں ایسا لگا جیسے انھیں پتھر آ کر لگے ہوں۔ ’’بھاگو، جان بچاؤ، ورنہ ہم یہیں دفن ہو جائیں گے۔‘‘ فیونا چلا کر بولی۔
تینوں تکلیف کے باوجود دوڑنے لگے۔ برف ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگی تھی اور وہ دہشت سے آنکھیں پھاڑے ان سے بچ بچ کر کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہو رہے تھے اور برف کے تودے ان کے دونوں طرف گر رہے تھے۔ ایک جگہ انھیں اپنے قدم روکنے پڑ گئے، انھوں نے دیکھا کہ وہ برف کے دو بڑے تودوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ سامنے نکلنے کا تنگ راستہ تھا۔ وہ امید کا دامن تھام کر اس طرف لپکے۔ ایسے میں برف ٹوٹنے کی ایک اور دہشت ناک آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑے لیکن راستہ بند ہو چکا تھا۔ ابھی وہ آنے والی آفت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ گلیشیئر کی منجمد دیوار یک لخت پھٹ گئی اور ٹھنڈے یخ پانی کی ایک لہر ان پر چڑھ دوڑی۔
’’یہ پانی کہاں سے آیا؟‘‘ دانیال کی آواز میں خوف اور حیرت دونوں تھے۔ جبران جلدی سے بولا: ’’جہاں سے بھی آیا ہو، چلو راستہ تو بن گیا۔‘‘ جبران جلدی سے اس راستے کی طرف بڑھا لیکن فیونا نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا اور اسے گلیشیئر کے ایک بڑے تودے کی طرف کھینچتی ہوئی لے گئی۔ دانیال بھی جلدی سے تودے پر چڑھا۔ پانی کا تند و تیز ریلا بڑے بڑے پتھر لڑھکاتا ہوا نیچے جانے لگا۔ فیونا نے اپنی سانسوں پر قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’میں بتاتی ہوں کہ یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ پہلے اس تودے کے سب سے اوپری سرے پر چڑھتے ہیں۔ جبران تم تو موت کے منھ میں گرنے جا رہے تھے۔‘‘
جب تینوں مزید اوپر چڑھ رہے تھے تو جبران کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔ موت کا نام سن کر اس کی زبان حرکت کرنا ہی بھول گئی تھی۔ دانیال نے بہ مشکل کہا: ’’یہ کک … کیا ہو رہا ہے؟ مم … مجھے لگ رہا ہے کہ آج ہم زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘
’’مایوسی کی باتیں مت کرو دانی۔‘‘ فیونا ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے ہوئے بولی۔ تینوں کے دانت بج رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار ان کا سامنا برفیلی آفت سے ہوگا۔ ایک ایسی آفت جس کا کوئی علاج انھیں نہیں سوجھ رہا تھا۔
فیونا کہنے لگی: ’’شَین نے کہا تھا کہ کبھی کبھی گلیشیئر دریا کے اوپر ایک ڈیم بنا دیتا ہے۔ یہ ڈیم گلیشیئر کے نیچے آہستہ آہستہ ایک بہت بڑی جھیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے، پھر جب دباؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو یہ پھٹ پڑتا ہے، جس طرح ابھی یہ پھٹا ہے۔ اگر جبران اس راستے کی طرف چلا جاتا تو پانی کا خوف ناک ریلا اسے بہا کر لے جاتا۔‘‘
’’لیکن یہ ریلا اب جا کہاں رہا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں، دریائے ڈنجِک یا دریائے یوکان میں، لیکن جب یہ ریلا ان میں سے کسی بھی دریا سے ٹکرائے گا تو اس وقت وہاں کوئی نہ ہو، ورنہ لوگوں کی جانیں جانے کا خطرہ ہے۔‘‘ فیونا فکرمندی سے بولی۔
’’کیا یہ پانی اسی طرح بہتا رہے گا؟‘‘ بڑی دیر بعد جبران نے زبان کھولی۔ اس کی نظریں اب بھی پھٹی ہوئی برفیلی دیوار سے نکلتے پانی پر جمی ہوئی تھی۔
’’ہمیں کچھ دیر تک تو انتظار کرنا پڑے گا، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔ وہ تینوں برف کی ایک بہت بڑی سِل کے سب سے اونچے سرے پر جا کر نیچے دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے برف کی دیوار ٹوٹی تھی وہاں سے کچھ دیر تک پانی ریلا نکل کر نیچے بہتا رہا، پھر دھیرے دھیرے پانی نکلنا بند ہوا تو وہاں ایک جوہڑ بن گیا، جس میں پتھر اور برف کے ٹکڑے رہ گئے تھے۔
’’چلو اس سوراخ سے گلیشیئر کے اندر چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا: ’’میرے خیال میں آج تک کوئی بھی گلیشیئر کے اندر نہیں گیا ہوگا، فوٹوگرافی بھی کر لیں گے۔‘‘
’’نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں اندر نہیں جانا چاہیے، اگر گلیشیئر ہمارے سروں پر آ گرا تو …‘‘ جبران نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ڈرو مت، اوپر سے ہم پر برف نہیں گرے گی، یہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔‘‘ دانیال نے اس بار بہادر بنتے ہوئے کہا۔ لیکن فیونا نے اسے یاد دلایا کہ کیا پتا تیسرا پھندا اس کے اندر ہی ہو۔
’’ٹھیک ہے، تم دونوں یہیں ٹھہرو، میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘ دانیال نے کہا اور برف کی سِل سے نیچے اترا۔ وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ دانیال واقعی بہادر دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ جوہڑ سے گزرا تو اس کے بوٹ گندے ہو گئے، نیچے اچھی خاصی کیچڑ بن گئی تھی جس سے اس کے بوٹ بھاری ہو گئے تھے۔ وہ برف کی دیوار میں بنے سوراخ کے پاس پہنچا تو اس نے دندانے دار ٹکڑے دیکھے جو شیشے کی نوکیلی کرچیوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ برف کے ٹکڑے تھے، اگر ان میں سے کوئی ٹکڑا گر کر کسی کے جسم پر لگتا تو یقیناً تیر کی طرح آر پار ہو سکتا تھا۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ تین آدمی اندر بہ یک وقت داخل ہو سکتے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دانیال نے سوراخ کے کناروں پر بوٹ رگڑ کر صاف کیے اور پھر وہ اندر داخل ہو گیا۔ انھوں نے اوپر سے دیکھا کہ دانیال نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ فیونا اور جبران کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ان کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا۔ انھیں لگا، ابھی دانیال کی چیخ سنائی دے گی، اور پھر چند سیکنڈز کے بعد ہی اس کی چیخ سنائی دی، جسے سن کر ان کے دل زور سے دھڑکے۔
(جاری ہے…)

Comments