نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اگلی صبح وہ دس بجے اٹھے۔ دانیال نے جوتے پہنتے ہوئے فیونا سے پوچھا کہ پکھراج کو کہاں تلاش کرنا ہے، اور کیا اس نے اس سلسلے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہے یا نہیں۔ فیونا نے تیار ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اس مقام کو پہچان لوں گی، لیکن فی الوقت یہ نہیں پتا کہ وہ ہے کہاں پر۔ ہمیں بس شہر میں جانا ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
جبران نے ان کا دھیان ناشتے کی طرف مبذول کرایا: ’’میں نے دیکھا تھا کہ اس ہوٹل میں مزے کا ناشتہ ملے گا، اور لنچ تو باہر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
کچھ دیر بعد وہ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلے تو فیونا نے بتایا کہ اس نے سیاحوں کی گائیڈ بک میں ایک جگہ کا نام پڑھا تھا جسے بیٹری پوائنٹ کہتے ہیں۔ جبران نے پوچھا کہ کیا پکھراج وہیں پر ہے، لیکن فیونا نے کہا کہ اسے نہیں معلوم۔ جبران اسے گھورنے لگا تو فیونا نے کہا تم لوگ یہاں ٹھہرو، میں سوچتی ہوں کچھ۔ یہ کہہ کر اس نے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یک بہ یک اس کے ذہن میں انگور کے ایک باغ کی تصویر ابھری۔ اس نے آنکھیں کھول لیں تو دونوں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔ فیونا نے منھ بنا کر کہا تم ایسے بے قوفوں کی طرح گھور کیوں رہے ہو۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے لگا شاید تم سو گئی ہو!‘‘
فیونا بولی: ’’میں سو نہیں گئی تھی، ہمیں بس ایک انگور کے باغ کو ڈھونڈنا ہے، یعنی ہمیں لوگوں سے پوچھنا ہے کہ انگور کے باغات کا علاقہ کہاں پر ہے۔‘‘
انھیں کچھ فاصلے پر کتابوں کی ایک دکان نظر آئی جو گلی کے اندر واقع تھی۔ دانیال نے کہا تسمانیہ سے متعلق جاننے کے لیے ایک کتابچہ خریدنا چاہیے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جبران نے کتاب کھول کر دیکھا تو انھیں ایک نقشے سے معلوم ہوا کہ سمندر ان سے بس پانچ منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں یہاں پینگوئن بھی دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں پریاں کہلاتی ہیں۔ تاہم جبران نے کہا کہ وہ اس علاقے کے قریب نہیں ہیں۔ فیونا نے ساحل کی ریت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا کہ کتاب سے پتا چلا کہ انگور کے باغات کہاں ہیں؟ دانیال نے بتایا کہ کتاب سے پتا چلتا ہے کہ تسمانیہ میں انگور کے سیکڑوں باغات ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ایک فون بوتھ کی تلاش میں سڑک کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے انھیں ایک نام بتایا کہ ان کا مطلوبہ انگور کا باغ وہاں ہے، اس جگہ کو جاننے کے لیے انھوں نے فون بوتھ میں پڑی فون ڈائریکٹری کھنگالی تو پتا چلا کہ ان کی مطلوبہ جگہ ہوبارٹ شہر ہی میں نہیں ہے، اور یہ کہ انھیں ایک لمبا سفر کرنا پڑے گا۔
فیونا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑے گی۔ وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے، جب ٹیکسی آئی تو فیونا نے ڈرائیور کو پتا سمجھایا۔ ڈرائیور نے مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں یا نہیں۔ فیونا نے مسکرا کر کہا بے فکر ہو جاؤ، اچھی ٹپ بھی ملے گی، بس ہمیں وہاں لے جاؤ۔
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے عقبی آئینے سے میں دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم لوگ تو بہت چھوٹے ہو، ادھر ادھر کیسے گھوم رہے ہو۔ تمھارے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ سے آئے ہو۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ ریڈیو کے قریب ڈیش بورڈ پر ڈرائیور کا لائسنس چپکایا گیا تھا، اور اس پر ڈرائیور کا نام ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔ فیونا نے کہا: ’’مسٹر ڈیوڈ، ہمارے والدین بزنس میٹنگ میں ہیں۔ ہم جہاں جا رہے ہیں اس باغ کے مالک میرے والدین کے دوست ہیں، والدین ہم سے بعد میں وہاں ملیں گے۔‘‘
ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، اس لیے وہ آرام سے ٹیک لگا کر سو بھی سکتے ہیں۔ فیونا نے اس سے پوچھا کہ کیا تسمانیہ میں واقعی پینگوئن ہیں؟ ڈیوڈ نے بتایا کہ ہاں لیکن وہ دوسری سمت میں ہیں، البتہ اگر چڑیا گھر جائیں تو وہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ پینگوئن بھی مل جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ جب وہ مطلوبہ انگور کے باغ پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ تینوں ٹیکسی سے اتر گئے اور فیونا نے اسے کرایہ ادا کیا۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ یہ ہے وہ جگہ یہاں پکھراج موجود ہے۔