نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
(جاری ہے…)
Comments