نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
سارے دن کے سیر سپاٹے کے بعد تینوں خوب تھک گئے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی، فیونا نے پوچھا کہ پہلے کمرے میں جا کر نہایا جائے یا پیٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دانیال نے کہا کہ اس کے پیٹ میں تو چوہوں نے تیسری عالمی جنگ برپا کر دی ہے، اس لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جبران نے بھی تائید کر دی اور ساتھ میں امید ظاہر کی کہ ہوٹل کا ریستوران کچھ ڈھنگ کا ہوگا۔ تینوں ہوٹل کی لابی سے گزر کر ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک کمرہ نما جگہ تھی جہاں دس میزیں ادھر ادھر لگائی گئی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایک موم بتی روشن تھی اور ساتھ ایک ننھا مسالہ بھرا بارہ سنگھا رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ریچھوں کے بڑے بڑے سر نکلے ہوئے تھے۔ جبران نے انھیں دیکھ کر برا منھ بنایا اور کہا: ’’کوئی بارہ سنگھا یا ریچھ مرا ہوگا تو انھوں نے اس کی کھال کے اندر چیزیں بھر کر انھیں یہاں لٹکا دیا۔‘‘
’’میرے خیال میں یہ حقیقی نہیں ہیں، مینو دیکھ کر اپنے لیے ڈش پسند کرو۔‘‘ فیونا نے کہا۔
دانیال بولا: ’’میں تو بارہ سنگھے کی پسلیاں اور ہرن کا قورمہ اور اس کے ساتھ یوکان کے گولڈ پوٹیٹو، گرم ڈبل روٹی اور موزبیری جیلی کا آرڈر دوں گا۔‘‘ جبران آنکھیں دکھا کر بولا: ’’اس کے لیے انھیں ایک بارہ سنگھا اور ہرن مارنا پڑے گا۔‘‘
فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’جبران، میں تو اود بلاؤ کی بُھنی ہوئی دم کھانے جا رہی ہوں۔ ہاں، مجھے پتا ہے کہ کسی غریب اود بلاؤ نے اپنی جان دی ہوگی، اس کے بعد کہیں جا کر اس کی دم میرے حصے میں آئے گی۔ لیکن یہ ہے دل چسپ۔ ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ میں بھی یوکان کے گولڈ پوٹیٹو وِد ڈبل روٹی منگواؤں تو اچھا رہے گا۔ سائیڈ میں نرم بٹر مِلک بسکٹ اچھے رہیں گے۔‘‘
جبران نے منھ بنایا اور کہا: ’’میں صرف پوٹیٹو، بٹر ملک اور سلاد لوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر جب ویٹرس آئی تو فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ پڑھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’مس روتھ، کیا یہ موز بیری جیلی بارہ سنگھے کی ہے؟‘‘ ویٹرس نے جواب دیا: ’’نہیں، یہ کرابیری سے بنائی جاتی ہے، ہم اسے موز بیری اس لیے کہتے ہیں تاکہ سیاح اس میں دل چسپی لیں۔‘‘
ویٹرس آرڈر لے کر چلی گئی اور وہ تینوں خاموشی سے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ دیواروں پر سونے کی کانوں کے دنوں کی تصاویر لٹکی ہوئی تھیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد جب ویٹرس نے فیونا کو بل دیا تو پوچھنے لگی کہ کیا وہ تینوں پہلی بار وائٹ ہارس آئے ہیں۔ فیونا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ اس سے قبل ہم یہاں کبھی نہیں آئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آج رات آرورا بوریلس ضرور دیکھیں، یہ ایک رنگین نظارہ ہوتا ہے۔ فیونا نے کہا کہ اس نے یہ نظارہ اسکاٹ لینڈ میں بھی دیکھا ہے لیکن ویٹرس کا کہنا تھا کہ اتنا روشن نظارہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ روتھ نے بتایا کہ انھیں بس اتنا کرنا ہے کہ آج رات اس ہوٹل کی چھت پر پہنچ جانا ہے، جہاں ہوٹل کے مہمانوں کے لیے نشستیں رکھوائی گئی ہیں۔دانیال نے اس کے جاتے ہی آرورا بوریلس کے بارے میں پوچھ لیا۔ فیونا بتانے لگی کہ زمین پر شمال بعید کے علاقے میں جو نارتھ پول کہلاتا ہے، وہاں سورج سے برقی ذرات خارج ہو کر جمع ہو جاتے ہیں، جس سے روشنی کی رنگین پٹی بن جاتی ہے۔ یہ روشنیاں آرورا بوریلس یعنی انوارِ قطبی کہلاتی ہیں۔ اور اس کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آرورا قدیم روم کی ایک دیوی کا نام ہے جو فجر کی دیوی کہلاتی ہے۔
(جاری ہے….)

Comments