نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
چمنی سے خاکی مائل بادامی دھواں اندر آ کر اس کی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا تھا، جس نے آن کی آن میں چکراتے ہوئے اوپر اٹھ کر اسے لپیٹ میں لے لیا۔ پھر دھوئیں کے چکر میں تیزی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی تیزی سے گھومنے لگا جس پر دہشت کے مارے اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ’’یہ … یہ … کیا ہو رہا ہے؟‘‘ لیکن کچھ ہی لمحوں کے بعد دھواں ٹھہر گیا، تو اس کا گھومنا بھی بند ہو گیا۔ اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ دھواں اس کے سامنے کھڑا ہو کر دھیرے دھیرے انسان کی شکل اختیار کرنے لگا۔
’’کک … کیا تم کنگ کیگان ہو؟ مم … میں نے تمھیں ابھی ابھی برا بھلا کہا … کک … کیا تم مجھے … اس کی سزا دو گے؟‘‘ وہ خوف کے مارے ہکلانے لگا۔
’’کیا میں کنگ کیگان کی طرح دکھائی دیتا ہوں؟‘‘ یکایک ایک کمزور اور بوڑھی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں پہلان ہوں، کنگ دوگان کا جادوگر۔ میں سیکڑوں برس سے یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، اور آخر کار تم پہنچ ہی گئے۔‘‘
’’ذرا ٹھہرو … پہلان …‘‘ ڈریٹن یہ سن کر اچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا کہ تم میرا انتظار کر رہے تھے، کیا مطلب ہے اس کا، تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟‘‘ اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا اور وہ کسی پولیس والے کی طرح سوال پر سوال داغنے لگا، لیکن جادوگر پہلان کو اس کی یہ بدتمیزی پسند نہیں آئی۔
’’لڑکے، میں تمھارے آبا و اجداد میں سے ہوں، میرا احترام کرو۔ مجھے ایک معمولی بھوت مت سمجھو۔ میں پہلان ہوں پہلان … زیلیا کا جادوگر!‘‘
’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ ڈر کر ایک دم سے با آدب کھڑا ہو گیا۔ پہلان کہنے لگا کہ اسے سونے کی گیند تمام قیمتی پتھروں سمیت چاہیے۔ پہلان نے کہا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکلس تمھارے پاس ہے۔‘‘
ڈریٹن کی شرٹ سے نیکلس لہراتے سانپ کی طرح باہر نکل آیا۔ ’’نہیں، میں یہ آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے اسے واپس شرٹ کے اندر ڈال لیا۔
’’بے وقوف لڑکے، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے آبا و اجداد کی طرح بالکل نہیں ہو۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ تم نے کتنی بے کار چیز کو گلے میں ڈال رکھا ہے تو انھیں تم پر غصہ آئے گا۔ اور تم نے عورتوں کی طرح یہ بُندے کیوں پہن رکھے ہیں، میں نے مردوں کو کبھی انھیں پہنے نہیں دیکھا۔
’’اب بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں اور مرد بھی انھیں پہننے لگے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے فوراً جواب دیا۔
’’میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ تمھارے سوا میں نے کسی کو بھی کانوں کے چھلے پہنے نہیں دیکھا۔ بہرحال تم جادوئی گولا اور قیمتی پتھر میرے پاس لے کر آؤ۔ جب یہ ساری چیزیں میرے پاس ہوں گی تو میں پھر سے زندہ ہو جاؤں گا اور تمھارا جادوگر بن کر تمھاری خدمت کروں گا۔ ہم ساری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یقیناً تم بھی یہی پسند کرو گے، کیا کہتے ہو نوجوان ڈریٹن۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہے ایسے ہی تھے جیسے بھوت ہنس رہے ہوں جسے سن کر زندہ لوگوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔‘‘
’’واہ یہ تو بہت شان دار خیال ہے۔‘‘ ڈریٹن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یعنی اب میں بھی ایک جادوگر سے کام لے سکتا ہوں۔ لیکن جادوئی گیند ہے کہاں؟‘‘
پہلان کے بھوت نے بتایا کہ جادوئی گولا اسی گاؤں میں ہے، ایک لڑکی نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اس نے ایک قیمتی پتھر بھی ڈھونڈ لیا ہے۔
’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا نیکلس کیوں اچانک چمکنے لگا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے چونک کر کہا۔ ’’چوں کہ میں دونوں خاندانوں کا وارث ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں دوگان کے جادو کا طریقہ سیکھوں۔‘‘
’’تمھیں ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہو گا۔‘‘ پہلان کے بھوت نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔ ’’میں خود ہی جادوئی گیند اور قیمتی پتھر حاصل کر لیتا لیکن میں اس قلعے اور جھیل سے باہر نہیں جا سکتا۔‘‘
’’اور اگر آپ یہاں سے نکلے تو کیا ہوگا … کیا آپ مینڈک بن جائیں گے یا کچھ اور؟‘‘ ڈریٹن نے عادت سے مجبور ہو کر مذاق اڑایا۔
’’بس … گستاخی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ پہلان کے بھوت کو غصہ آ گیا۔ ’’میں یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوں گا، لیکن اگر نکلا تو عظیم جادوگر کا قہر مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ اسے نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور مجھ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے میں یہیں رہوں گا۔‘‘
’’تو تم کبھی بھی یہاں سے باہر نہیں نکلو گے؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا۔
اس نے کہا: ’’فی الحال حالات ہی ایسے ہیں، اگر مجھے کوئی چھوٹا بدن مل جائے تو میں یہاں سے نکل سکتا ہوں، لیکن وہ بھی صرف بارہ گھنٹوں کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
ڈریٹن چونکا، اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کک … کہیں آپ میرا جسم لینے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔ چھوٹے بدن سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کسی جانور کا؟‘‘
’’احمق لڑکے، میں کسی انسانی بدن میں نہیں جا سکتا، کم سے کم اتنی آسانی سے تو بالکل نہیں۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں میں کسی بھتنے، بونے، بالشتیے یا پھر پریوں کی دنیا کی کسی اور مخلوق کے جسم میں اندر جا سکتا ہوں اور اس پر قبضہ جما سکتا ہوں۔‘‘ پہلان جادوگر کا بھوت کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں نے تمھیں بہت کچھ بتا دیا ہے، وہ باتیں جو تمھیں بتانے کی نہیں تھیں۔ مجھے وہ جادوئی گولا چاہیے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے اپنا جسم حاصل کر سکوں۔ اب تم میرے حکم کی تعمیل کرو گے ورنہ میں تمھیں مینڈک سے بھی زیادہ بدتر چیز میں تبدیل کر دوں گا۔ تم ہر رات یہاں آؤ گے اور میں تمھیں جادوگروں کے طریقے اور منتر سکھاؤں گا۔ جب وقت آئے گا تو تم ان منتروں کو استعمال کر کے جادوئی گولا حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘
یہ کہہ کر جادوگر کا بھوت پھر دھواں بن کر غائب ہو گیا۔
(جاری ہے….)