نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
فیونا نے چراغ کے جن سے کہا کہ اتنا سب کچھ ایک اشارے میں حاضر کر دیا لیکن اس دسترخوان پر کوئی ایک کانٹا یا چمچ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکیم نے دانت نکال کر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اردن میں چمچے کانٹے استعمال نہیں ہوتے، لوگ انگلیاں ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے اب چپ چاپ کھا لو۔ دانیال مسکرایا میں اور جبران تو اس کے عادی ہیں، اس لیے ہمیں انگلیوں سے کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے بعد تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کھانا ٹھونسا، کیوں کہ کھانے کے بعد جبران اڑن قالین پر ہاتھ اور ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا، اس کا پیٹ پوری طرح پھول گیا تھا۔ فیونا اور دانیال کا بھی یہی حال ہو رہا تھا، فیونا نے اگرچہ کچھ کہا نہیں لیکن کراہتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور پیر پھیلا دیے۔
پھر حکیم نے تالی بجائی اور سب کچھ غائب ہو گیا۔ حکیم ان تینوں کو خوش دیکھ کر مسکرایا، اور جیب سے نکال کر انھیں الگ الگ قیمتی تحفے بھی دے دیے۔ جبران کو اس نے ایک سکہ دیتے ہوئے کہا یہ نوجوانی سے میرے پاس ہے اور یہ خوش قسمتی کا سکہ ہے، تم جب بھی اسے ہاتھ میں پکڑو مجھے یاد کر لینا۔ دانیال نے کہا آپ نے ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کو چراغ میں کیوں ڈال دیا گیا تھا، کیا آپ نے کسی کو قتل کیا تھا۔
حکیم نے بتایا: ’’اگر تم واقعی جاننا چاہتے ہو تو سنو، 1200 سال پہلے میں یہاں سے بہت دور بغداد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، میں نے کبھی چوری بھی نہیں کی۔ میں وہاں بس لوگوں کے مجمع میں قصے سنایا کرتا تھا، ہاں میں ایک قصہ گو تھا۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی: ’’اب ہمارے دور میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی جاتی ہے، قصہ گوئی کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘‘
حکیم بولنے لگا: ’’ ہر رات بازار میں لوگ میری کہانیاں سننے کے لیے رک جاتے تھے۔ لیکن پھر میرے پاس کہانیاں ختم ہو گئیں اور میں وہی پرانی کہانیاں بار بار سناتے ہوئے تھک گیا۔ ایک دن میں نے لوگوں کو ایک لطیفہ سنایا، لیکن کوئی نہیں ہنسا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ جلدی کرو اور کہانی ختم کرو۔ اگلی رات میں نے پھر لطیفہ سنایا اور پھر دوسرا سنایا لیکن افسوس کہ میرے علاوہ اس پر کوئی نہیں ہنسا، میرا تو خیال تھا کہ میرے لطیفے کافی مضحکہ خیز ہیں۔ پھر ایک دن سلطان بازار کے پاس آکر رکا، اس نے میرا بڑا ذکر سنا تھا۔ مجھے یہ جان کر بہت جوش آیا اور میں نے ایک بڑی غلطی کر دی، اس رات خاص طور پر میں نے کہانیاں سنانے کی بجائے ایک کے بعد ایک لطیفہ سنایا۔ سلطان کو شدید مایوسی ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ اگر میں نے یہ لطیفے نہ سنانے کا وعدہ نہ کیا تو مجھے جادو کے چراغ میں ڈال دیا جائے گا، اور میں نے انکار کر دیا تو مجھے چراغ میں بند کر کے اسے صحرا میں پھینک دیا گیا۔‘‘
فیونا نے کہا ایک تحفہ میں بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں، پھر اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا پیکٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ حکیم حیرت سے اس پیکٹ کو دیکھنے لگا۔ فیونا بولی اسے کھولو اور اس میں موجود اسٹکس میں سے ایک نکال کر منھ میں ڈال لو، اور ہاں اسے ببل گم کہتے ہیں۔
حکیم نے ان کے کہنے کے مطابق ڈرتے ڈرتے ایک ببل گم منھ میں رکھ کر چبایا، اگلے ہی لمحے اس کے منھ میں مٹھاس پھل گئی۔ کچھ دیر بعد وہ بولا کیا اسے بس یوں ہی چباتے رہنا ہے۔ فیونا ہنس کر بولی، ابھی ایک اور تماشا دکھاتی ہوں ٹھہریں۔ پھر اس نے بھی ایک ببل گم منھ میں ڈال کر چبانا شروع کیا اور پھر اچانک اسے دانتوں سے باہر نکال کر اس میں ہوا بھری اور بلبلا بنا دیا۔ دھیرے دھیرے وہ فیونا کے منھ پر بڑا ہوتا گیا اور پھر اچانک پھٹ گیا اور اس کی بلبلہ اس کی ناک پر پھیل گیا۔ جبران اور دانیال ہنسنے لگے، چراغ والا جن بھی ہنس پڑا۔ فیونا بولی جب بھی آپ فارغ ہوں اور بور ہو رہے ہیں تو ببل گم چبا لیا کریں۔
اور پھر وہ لمحہ آ گیا جب حکیم نے رخصت ہونا تھا، وہ اس وقت ریت پر کھڑے تھے، حکیم اپنے اڑن قالین پر بیٹھ گیا اور ان کی طرف جھک کر بولا، کیا تم واقعی جاتے جاتے ایک لطیفہ نہیں سننا چاہو گے مجھ سے؟ تینوں کے منھ سے بہ یک وقت نکلا ’’نہیں۔‘‘ حکیم نے کندھے اچکائے اور ہوا میں اڑتا چلا گیا۔ فیونا نے گہری سانس لے کر ان دونوں کی طرف دیکھا، جبران آہستگی سے بولا، ہمارے بھی جانے کا وقت آ گیا ہے۔ تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا اور فیونا منتر پڑھنے لگی۔۔۔ دالث شفشا یم بٹ ۔۔۔