نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’گھر میں کوئی نہیں، یہ صبح میرے لیے لکی ہے۔‘‘ ڈریٹن مسکرایا اور احتیاطاً سارے گھر کے گرد ایک چکر لگا لیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ باغیچے میں بھی کوئی نہیں ہے تو اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔
’’ارے یہ تو بند ہے، حیرت ہے۔ یہاں کسی کے گھر کا دروازہ بند نہیں ہوتا، لیکن اس گھر کا دروازہ بند ہے۔ کیا بات ہے مائری اور فیونا… کیا چھپا رکھا ہے تم دونوں نے؟‘‘ وہ پُر جوش ہو کر بڑبڑانے لگا۔
نہ صرف دروازے بلکہ کھڑکیاں بھی اندر سے بند تھیں۔ ہاں باورچی خانے کی کھڑکی کھلی مل گئی۔ اس نے دیوار کے ساتھ ایک گملا رکھا اور اس پر چڑھ کر اچھلا اور کھڑکی پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ گھر کے اندر تھا۔ گھر اندر سے صاف ستھرا تھا اور ہر شے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ یہ بات اس کو سخت ناپسند تھی، اس لیے اس نے الماریوں سے برتن نکال نکال کر فرش پر پٹخ دیے۔ ذرا دیر میں اس نے گھر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ریفریجریٹر سے بھی کھانے پینے کی تمام اشیا نکال کر فرش پر پھینک دیں۔
’’فیونا… تم نے اسے آخر کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس نے بیڈروم کی الماری بھی اسی طرح خالی کر دی۔ طاقچوں میں رکھے سارے برتن اب فرش پر بکھرے پڑے تھے۔ غرض ہر چیز اس نے الٹ پلٹ کر رکھ دی لیکن وہ جس چیز کی توقع کررہا تھا، وہ اسے نہیں مل سکی۔ آخر تھک ہار کر وہ بڑبڑایا: ’’ہونہہ … تو اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسے چھپایا ہوا ہے، تاکہ کوئی بھی اسے نہ پاسکے۔‘‘ کوئی ایک گھنٹے بعد وہ فیونا کے گھر سے نکلا۔ اس کا رخ اب اینگس کے گھر کی طرف تھا۔
(جاری ہے…)