تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

’’بہت خوب۔‘‘ ڈریٹن نے اداکاری کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’تو وہ اسی گھر ہی میں رہ رہا ہے، جہاں میں نے آخری مرتبہ اس کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ تو ایلسے، اب میں ایسی جگہ کا خواہش مند ہوں جہاں مجھے تنہائی میسر ہو کیوں کہ میں کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے میں ایسی جگہ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلا اور نفرت انگیز انداز میں منہ سکیڑ کر بڑبڑایا: ’’بے وقوف بڑھیا، یہ تو میری ماں سے بھی کہیں زیادہ بے وقوف لگ رہی ہے۔ ویسے اس سے کافی معلومات مل گئی ہیں، اور اب میں جان گیا ہوں کہ اینگس کہاں رہتا ہے۔ اب میں وہاں جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ اس نے اپنے آس پاس کیا کچھ جمع کر رکھا ہے۔‘‘

ڈریٹن اینسٹر اسٹریٹ کی جانب گامزن ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اینگس کے گھر پر تھا۔ پہلے تو اس نے گھر کے باہر احاطے میں احتیاط سے دیکھا کہ کہیں اس نے کتے تو نہیں رکھے، لیکن وہاں کوئی کتا نہیں تھا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور آگے بڑھ کر دروازے کا ہینڈل گمھایا۔ اسے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اینگس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ’’مزا آئے گا۔‘‘ شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیلنے لگی تھی۔

دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی وقت بہت ساری بلیاں اس کی طرف دوڑ پڑیں اور اس پر غرانے لگیں۔ اینگس کو کتے پالنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن بلیاں انھوں نے بہت ساری اور بہت شوق سے پالی تھیں۔ گھر میں ہر طرف بلیاں ہی بلیاں نظر آیا کرتی تھیں۔ یہ بلیاں ایک اجنبی کی آمد پر بہت غصے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈریٹن نے دروازہ کھلا چھوڑا اور ایک بلی کو غصے سے لات مار کر باہر پھینک دیا اور چلایا: ’’دفع ہو جاؤ منحوس بلیوں!‘‘ جو بلی اس کے قریب آتی وہ اسے لات مار کر باہر پھینکنے لگا۔ کئی ایک بلیاں جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہی تھیں، ڈریٹن نے انھیں دم سے پکڑ کر دور اچھال دیا اور آخر میں دروازہ بند کر دیا۔

کچھ دیر تک گھر کی تلاشی لینے کے بعد اس نے قریب سے گاڑی کے گزرنے کی آواز سنی تو اس نے محسوس کیا کہ یہ وقت درست نہیں ہے، رات کا اندھیرا بہتر ہوگا۔ اس لیے وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ درختوں کے جھنڈ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ آذر کو کیسے اور کہاں ڈھونڈے۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ایک موڑ پر اسے ایک بورڈ نصب نظر آ گیا، جس پر لکھا تھا: ’’قلعہ آذر اس طرف۔‘‘ وہ اس طرف چلتا چلا گیا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ کر رک گیا، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’تو قلعہ ایک جزیرے پر ہے، اب وہاں تک کیسے پہنچوں؟‘‘

کچھ دیر تک جب اسے کوئی ذریعہ نظر نہیں آیا تو اس کے سر میں غصے کا غبار بھر گیا۔ اور پھر اس کی نگاہ جبران کے پاپا والی کشتی پر پڑ ہی گئی۔ ڈریٹن اسے ایک اتفاق ہی سمجھا، لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ یہاں جبران کے پاپا کی کشتی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس نے کشتی کی رسی کھول دی اور اسے پانی میں دھکیل دیا، پھر چپو سنبھال کر کشتی کو جزیرے کی جانب کھینے لگا۔ وہاں پہنچ کر جب اس نے کشتی کو ساحل پر ٹھہرایا تو قلعے سے بہت سار ہنس اڑ کر دور چلے گئے۔

اس نے ایک نظر میں قلعے کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ تو قلعے کی طرح نہیں لگ رہا ہے۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا بے خوفی سے قلعے میں داخل ہو گیا، اور تمام کمروں میں گھوما پھرا۔ اسے جادوئی گولے اور کتاب کی تلاش تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس نے چمنی کے پیچھے چھپا ہوا کمرہ تلاش کر لیا۔ دراصل فیونا اور اس کے دوست دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے۔ وہ یہ خفیہ دروازہ کھلا دیکھ کر خوش نہیں ہوا، بلکہ تشویش میں مبتلا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ضرور یہ دروازہ اس سے پہلے ہی کوئی کھول چکا ہے۔ اندر میز بھی موجود تھی اور صندوق بھی۔ اس نے میز کے نیچے دیکھا، وہاں سونے کی تختی لگی تھی جیسا کہ اس کے پاس موجود کتاب میں ذکر تھا، پھر اس نے صندوق کھول کر دیکھا تو اس میں مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نگاہیں کھڑکی کے منقش شیشے پر ٹھہر گئیں۔ شیشہ بالکل صاف تھا جیسے اسے کسی نے حال ہی میں صاف کیا ہو۔ اسے شیشے پر بادشاہ کیگان کی شبیہ نظر آ گئی۔

’’ تو تم ہو کنگ کیگان۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میرے پیش رو، لیکن مجھے اس پر ذرا بھی فخر نہیں ہے، تم بزدل ہو، تم اسی کے مستحق تھے کہ تمھارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ دیکھو کیگان، یہ رہا تمھارا نیکلس… میرے پاس!‘‘

اس نے کھڑکی کے سامنے کھڑے کھڑے سینہ تان لیا اور بلند آواز میں بولنے لگا: ’’تمھیں پتا ہے میرے پردادا دوگان نے تمھاری بیٹی ازابیلا سے زبردستی شادی کر لی تھی۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، کیا تمھیں پتا ہے؟‘‘ وہ ہنسنے لگا: ’’نہیں، بھلا تمھیں کیسے پتا چل سکتا ہے، تم تو کب کے کیڑوں کی خوراک بن چکے ہوگے۔‘‘

اچانک اسے اپنے قدموں کے پاس کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اس نے جلدی سے پیروں کی طرف دیکھا، اور اسے ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہڑ دوڑتی محسوس ہوئی۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -