نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اونٹ کے جانے کے بعد فیونا اور وہ دونوں قصر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ اندر بھی گرمی تھی، اور آس پاس کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باقی دونوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جب کہ دانیال نے یہ کہہ کر کہ وہ تو اپنا جادوئی چراغ بھول ہی گیا ہے، اسے نکال لیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا یہ بس ایک چراغ ہے، یہاں لوگ انھیں تیل جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس بجلی نہیں ہے۔

دانیال نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اور چند قدم آگے بڑھ کر قلعے کی پتھر کی اونچی دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی ہلکی نیلی قمیض کا کونا پکڑ کر چراغ پر رگڑا تاکہ اسے صاف کرے، کہ اگلے ہی لمحے وہ بری طرح اچھل پڑا۔ چراغ ایک دم سے گرم ہو کر لرزنے لگا تھا اور اس میں سے ایک عجیب سا ڈراؤنا شور نکلنے لگا۔ اس نے گھبرا کر چراغ ہاتھوں سے گرا دیا۔ اور دوڑ کر فیونا کے پاس چلا گیا۔ فیونا اس کے چہرے کی حالت اور منھ سے نکلتی ٹوٹی پھوٹی بات سن کر ہنسنے لگی۔ ’’دانی، یہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے، اور وہ تم ہو۔‘‘

دانیال نے کہا اگر تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو آؤ خود دیکھو۔ فیونا نے مذاق اڑاتے ہوئے جبران سے کہا آؤ دانی ہمیں چراغ والا جن دکھائے گا۔ وہ جیسے ہی اس کونے میں پہنچے جہاں دانیال نے چراغ گرایا تھا تو انھیں چکر کاٹتے سبز دھوئیں نے گھیر لیا۔ دانی نے جلدی سے بتایا کہ یہ چراغ میں سے نکلا ہے۔ وہ دونوں بھی حیرت سے سبز دھوئیں کو دیکھنے لگے، دانیال کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی، کیوں کہ وہ سچا ثابت ہوا تھا۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ دانیال چیخا: ’’یہ دیکھو، میں نے کہا تھا نا کہ یہ جینی ہے!‘‘

ان کے سامنے کھڑی مخلوق نے ناراض اور گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں تمھیں عورت دکھائی دیتی ہوں کیا؟ میں جینی نہیں جن ہوں۔‘‘

فیونا نے نوٹ کیا کہ اس کی دھوئیں جیسی جلد ہلکی سبز تھی، سر پر ایک چمک دار سلنڈر سی سبز ٹوپی جمی تھی، جس کے اوپری سرے پر ایک پھندنا لٹک رہا تھا، اس کی پینٹ دیودار کے درخت کی طرح تھیلی دار اور گہرے سبز رنگ کی تھی، جب کہ زیتون ایسی سبز واسکٹ پہنی تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ موٹے بازوؤں والا جن تھا اور اس نے پیروں میں سنہری چپل پہنی ہوئی تھی۔
اچانک دانیال نے پوچھا ’’کیا تم ہماری تین خواہشات پوری کرو گے؟‘‘

جن نے ایک بار پھر ناراض ہوتے ہوئے کہا ’’میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ایک جن ہوں، اور جن خواہشات پوری نہیں کرتے بلکہ جینی کرتی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا ’’مجھے اس فرق کا نہیں پتا۔ تم ایک جادوئی چراغ سے آئے ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک جن ہو اور خواہشات پوری کر سکتے ہو۔‘‘

جن نے کہا میرا نام حکیم ہے، میں سلطان دیبوجی کے زمانے کا ایک جن ہوں۔ مجھ سے بس تھوڑا سا بکری کا دودھ گر گیا تھا جس پر سلطان نے مجھے پیتل کے اس چراغ میں بند کر دیا۔ ویسے یہ کون سی صدی ہے؟ جبران نے جواب دیا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہ اچھل کر بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اس چراغ میں 1200 سال سے بند ہوں؟ بکری کا تھوڑا سا دودھ گرنے کے لیے۔‘‘

کچھ لمحوں بعد وہ خوش ہو کر بولا آپ سب کا شکریہ، میں اب خوش ہوں کہ آزاد ہو گیا ہوں۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ ویسے تم لوگوں نے ٹوپیاں اچھی پہنی ہیں۔ دانیال نے چیخ کر کہا ’’رکو ذرا، تمھیں ہماری تین خواہشیں پوری کرنی چاہیے، ہم نے تمھیں آزاد جو کیا ہے۔‘‘ لیکن جن نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر دانیال نے کہا اچھا دو خواہشیں تو پوری کرو، لیکن جن نے انکار میں سر ہلایا۔ ایسے میں فیونا نے مسکرا کر کہا چلو ایک خواہش ہی پوری کر دو۔ پر جن نے کہا ’’بالکل نہیں، ہاں، میں آپ کو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں۔‘‘

فیونا جلدی سے بولی’’ ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جن نے کہا تو کیا جادوئی قالین چلے گا؟ دانیال اچھل کر بولا اوہ کیوں نہیں، زبردست۔ اس پر حکیم نے اپنا سبز دھواں دار ہاتھ ہوا میں لہرایا اور عربی میں کچھ بڑبڑایا، اگلے ہی لمحے ان کے قدموں میں ایک جادوئی قالین بچھا نظر آ رہا تھا۔ انھیں یہ بالکل ویسا ہی لگا جیسا کہ انھوں نے مادبا میں دیکھا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ انھیں صرف جادوئی لفظ دہرانا ہے اور یہ اڑنے لگے گا۔ اور جب وہ واپس جائیں تو اس قالین کو قصر میں چھوڑ کر جائیں۔ سلامہ ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں میری نئی آزادی مجھے بلا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔

فیونا نے اچانک کہا کہ جن نے تو وہ جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں، اب ہم اس پر کیسے اڑیں گے؟‘‘ وہ جن کو بار بار آوازیں دینے لگے لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ وہ تھک کر وہاں بیٹھ گئے۔ جبران نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ یاقوت کہاں ہے؟ کیا اس قلعے میں ہے؟ فیونا نے بتایا کہ وہ یہیں پر ہے لیکن اسے صرف سورج نکلنے کے وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جبران حیران رہ گیا: ’’اس بار وقت کی یہ پابندی کیوں بھلا؟‘‘ فیونا نے حیرت انگیز بات بتائی کہ یاقوت کو صرف سورج کی روشنی میں دیکھا جا سکے گا، نہ پہلے نہ بعد میں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سارا دن اور ساری رات یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ فیونا تو کچھ ہی دیر میں وہاں سو گئی، جب کہ جبران ویران قلعے میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دانیال اسکیچز بنانے لگا، اس نے دراصل جن کی تصویر بنانی تھی۔

کئی گھنٹوں بعد جب فیونا نیند سے جاگ گئی تو جبران بھی واپس آ گیا تھا، انھیں ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی۔ فیونا نے بیگ سے تین انار نکالے جسے دیکھ کر جبران اور دانیال خوش ہو گئے، لیکن یہ چیز فیونا کے لیے نئی تھی، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کھانا کیسے ہے۔ جبران نے بتایا کہ اسے کھول کر اس کے اندر موجود دانے کھانے ہیں اور یہ بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے…)

Comments