نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن بنیادی طور پر ایک نہایت لالچی شخص تھا، اس لیے پل پل اس کی طبیعت بدل رہی تھی۔ جب مائری کو اس نے جھیل میں پھینکا تو کشتی کو دوبارہ اس غار کی طرف لے گیا جہاں سے قلعہ آذر میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ رات کا وقت تھا، وہ کشتی سرنگ کی طرف کھینچ کر لے گیا تاکہ کوئی اور اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ اور پھر قلعے کی اس منزل پر چلا گیا جہاں اس نے سونا اور زیورات چھوڑے تھے۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اتنا سونا اور جواہرات ہیں کہ اسے جادوئی گیند کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب باقی زندگی عیش سے بسر کی جا سکتی ہے۔ اس نے دل میں کہا پہلان، تم بھی بھول جاؤ اور جادوئی گیند خود حاصل کرو اب۔ میں تو اس مقابلے سے باہر ہو گیا ہوں۔ پھر اس نے خزانے سے بہت سارا ایک لکڑی کے کریٹ میں باندھا اور کشتی تک لے گیا۔ جب اس نے کشتی کے نچلے حصے میں اسے خالی کیا تو خیال آیا کہ اب اسے اپنے گھر ٹرورو کیسے پہنچاؤں گا، تب اسے جواب ملا کہ بحری راستے ہی سے جائے گا یہ۔ ڈریٹن کے لیے یہ کافی نہیں تھا، اس نے کئی چکر لگائے اور کریٹ بھر بھر کر کشتی پر لاتا رہا۔ پھر اس نے کشتی کو جھیل میں ڈال دیا۔ رات کافی پر سکون تھی، آسمان ستاروں سے ڈھکا ہوا تھا، جھیل کے پانی پر کشتی دھیرے سے تیر رہی تھی، ہوا بھی خوش گوار تھی۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اتنے سارے سونے جواہرات کو کہاں چھپائے گا، جہاں وہ مضبوط باکس تلاش کر کے انھیں اس میں پیک کرے گا اور پھر اپنے گھر بھیج دے گا۔
اس کی توجہ کشتی کے نیچے پانی کی طرف چلی گئی، اسے لگا کہ پانی سیاہ سے دودھیا ہونے لگا ہے، وہ حیران ہوا اور آسمان میں چاند کی طرف دیکھا کہ کہیں یہ اس کا پھیلتا سایہ تو نہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ پھر یکایک کشتی کے پچھلے کنارے کی طرف جھیل کے پانی میں ایک بھنور بن گیا اور کشتی اس کی طرف پوری قوت سے کھنچنے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ جادوگر پہلان کی کارستانی ہے، اس لیے وہ پوری قوت سے دوسرے کنارے کی طرف کشتی چلانے لگا اور بھنور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ذرا ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ جھیل کا پانی نیچے اتر کر کم ہونے لگا ہے، پانی اس گہرے بھنور میں جا کر غائب ہو رہا تھا۔ وہ چلایا: ’’پہلان، مجھے اکیلا چھوڑ دو!‘‘ لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے محسوس کر لیا کہ وہ سونے کی ایک چیز بھی نہیں لے جا پائے گا تو اس نے کشتی سے چھلانگ لگا دی اور کنارے کی طرف تیرنے لگا، لیکن بھنور اسے بھی اپنی طرف کھینچنے لگا۔
آخر کار ڈریٹن نے جادو کے ذریعے اپنا قد بڑا کر دیا اور کنارے پر پہنچ گیا۔ وہاں سے وہ کشتی کو ساری دولت کے ساتھ اس بھنور میں گر کر کہیں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ لمبے لمبے قدم بھرتا واپس قلعے والے کنارے کی طرف چلا گیا اور سیدھا محل جا پہنچا۔ وہ بھی ایک ضدی تھا، دولت چھوڑ کر جانا اس کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے اس نے مزید سونا اور جواہرات اٹھا کر پینٹ کی جیبوں میں خوب بھر لیے، اور پھر محل سے نکل کر قد بڑا کر کے جھیل پار کر لی۔ اب کے اس نے خود اعتمادی محسوس کی، کیوں کہ وہ سونا لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا، اور پھر وہ جنگل میں اسے کہیں چھپانے کی جگہ تلاش کرنے لگا۔ اس نے ایک درخت کا انتخاب کیا اور اس کی جڑ میں مٹی کھودی اور اپنی جیبیں اس میں خالی کر دیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ مٹی کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے بے خبر کہ جھیل کی جانب سے ایک دھند اس کی طرف لپکتی آ رہی ہے۔ ہوا درختوں کے درمیان سے سرسراتے ہوئے گزر رہی تھی۔ پہلان کا دھواں جیسا وجود درختوں کے جھنڈ کے پیچھے رک گیا، اور ایک سرگوشی کے ذریعے جنگل کی تمام بد روحوں کو بلانے لگا۔ سب سے پہلے سرخ ٹوپیوں والی بدشکل بد روحیں نمودار ہو گئیں، ان کی ٹوپیاں انسانی خون سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے ہمیں بلایا ماسٹر۔‘‘ یہ فوفیم تھا جس نے آتے ہی پہلان جادوگر کے آگے سر جھکایا اور باقی سرخ ٹوپیوں والے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ’’آپ کا کیا حکم ہے آقا؟‘‘ فوفیم کے حلق سے نکلنے والی آواز خاصی کریہہ تھی۔
پہلان نے کہا: ’’سب کو لے کر قلعہ آذر میں مجھ سے ملو۔ میرے پاس تمھارے لیے کچھ کام ہے۔‘‘
سرخ ٹوپیوں والی بہت کریہہ قسم کی مخلوق تھی، یہ انسانوں سے بڑے تھے، ان منھ اور سر خنزیر کی مانند تھے اور گالوں پر بد نما مسّے تھے، جبڑوں سے ہاتھ دانت کی طرح دانت باہر نکلے تھے، سر کے بال غلیظ اور الجھے ہوئے، باقی جسم پر بھی لمبے لمبے بال تھے۔ اور انھوں نے پیروں میں لوہے کے زنگ آلود جوتے پہن رکھے تھے اور ہاتھوں کی انگلیاں دراصل نوکیلے خم دار پنجے تھے۔
پہلان نے پوچھا: ’’جیسا کہ میں نے کہا مجھے تم لوگوں سے کام ہے، تو تم اس کام کے کیا لوگے؟‘‘ ایک اور بد روح نے کھڑے ہو کر جواب دیا: ’’میں ڈوکومک ہوں، ہم تو بس آپ کی خدمت پر مامور ہیں اس وقت، ماسٹر، آپ حکم کریں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تو قلعہ آذر جاؤ، میں تمھیں انعام ضرور دوں گا۔‘‘ فوفیم اور ڈوکومک نے حکم کی تعمیل بجا لائی اور تمام سرخ ٹوپیوں والوں کو لے کر قلعے کی طرف چلے گئے۔
ان کے جاتے ہی پہلان نے ایک بار پھر سرگوشی کی اور اس بار اس نے اسکاٹ لینڈ کی لوک داستانوں کی ایک مادہ روح ’بین نی یے‘ کو طلب کیا۔ اسے موت کا ہرکارہ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ عجیب اور خوف ناک عورت کسی کے کپڑے دھو دے تو وہ مر جاتا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں جھیل کے پانی سے ہلکی نیلی شکلیں نمودار ہو کر تیزی سے پہلان کی طرف تیرنے لگیں۔ پاس آ کر انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہے ان کے لیے۔ پہلان نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا صرف ایک نتھنا تھا، اور ایک پھیلا ہوا دانت۔ اس کے پاؤں جالی دار تھے۔ پہلان نے انھی دیکھ کر کہا: ’’دھوبی عورتو! میں نے تمھیں ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے، ویسے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
ان میں سے ایک لیڈر دھوبن آگے بڑھ کر بولی کہ اس کا نام ایریا ہے، اور کیا اسے دھلائی کی ضرورت ہے۔ پہلان نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس کی بات مانیں گے تو وہ انھیں مرنے والے انسانوں کی بے شمار دولت دے دے گا۔
ایریا نے کہا: ’’آقا، آپ جانتے ہیں کہ ہم وہ عورتیں ہیں جو زچگی کے دوران مر گئی تھیں، ہم پر تو ہمیشہ کی پھٹکار پڑ چکی ہے، اور سزا یہ ہے کہ بس کام کرتے جائیں، تو تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
پہلان نے کہا کہ تم سب قلعہ آذر جاؤ، ایک کام ہے، اور وعدہ ہے کہ اتنا کام دوں گا کہ تمھاری ضرورت سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ روحیں بھی قلعے کی طرف چل پڑیں۔ اس کے بعد شیطان جادوگر نے ایک گہری سانس لی اور اسے اونچی آوازوں کے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن یہ آوازیں انسان نہیں سن سکتے تھے۔ اگلے ہی لمحے مغرب کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ کی مانند بد روحیں اڑتی ہوئی آئیں، اور زمین پر اترتے ہی انسان نما شکلیں اختیار کر لیں۔ ان کا لیڈر روفریر آگے بڑھ کر بولا: ’’آپ نے ہمیں طلب کیا ماسٹر۔‘‘