نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
اگلی صبح فیونا اپنی ممی کے ساتھ الجھ رہی تھی۔’’لیکن ممی، میں آج اسکول نہیں جانا چاہتی، ہمیں اگلے مقام سے قیمتی پتھر حاصل کرنا ہے۔ انکل اینس اور دیگر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے جزبز ہو کر احتجاج کیا۔
’’فیونا، کان کھول کر سن لو، تمھیں اسکول جانا ہے۔ اینگس اس بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تم اسکول کے بعد وہاں چلی جانا، مجھے بھی کام پر جانا ہے، میں بھی وہاں سے سیدھی اینگس کے ہاں آ جاؤں گی۔ اب کوئی بحث نہیں، اسکول جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر مائری مک ایلسٹر نے اسکول بیگ اور ٹفن اس کے حوالے کر دیا۔ فیونا نے غصے میں بیگ اور ٹفن لیا اور ماتھے پر بوسہ لیے بغیر دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کرتے ہوئے چلی گئی۔ مائری نے ٹھنڈی آہ بھری اور دروازہ بند کر کے بیکری کی طرف چل پڑی۔
اسکول سے ایک فرلانگ پہلے ہی فیونا کو جبران بھی مل گیا۔ وہ بھی بجھے دل کے ساتھ اسکول جا رہا تھا۔ چلتے چلتے فیونا اسے گزشتہ رات کے واقعات بتانے لگی۔ ’’تم گھر چلے گئے تو ہم اس کے بعد قلعہ آذر گئے۔ وہاں زیر زمین ایک غار تھا اور بہت سارے سرنگ تھے۔ ڈریٹن نے اپنی جسامت بڑھا کر جیزے کو اٹھایا اور دور پھینک دیا، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔‘‘
’’ذرا ٹھہر جاؤ، تھوڑا آہستہ آہستہ بولو۔‘‘ جبران نے تجسس سے کہا۔ فیونا نے اس کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا: ’’مجھے تو بہت غصہ آ رہا ہے، ممی نے مجھے زبردستی اسکول کے لیے بھیجا ہے، وہ بھی کام سے واپسی پر انکل اینگس کے ہاں آ رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب…‘‘ جبران چونک اٹھا۔ ’’کیا تمھاری ممی سب کچھ جان گئی ہیں؟ کیا وہ میری ممی کو بتا تو نہیں دیں گی؟‘‘
’’انھوں نے کہا تو ہے کہ وہ سب کچھ راز رکھیں گی۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’لیکن کچھ پتا نہیں ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی زخمی ہو جاتا ہے تو اس صورت میں وہ تمھارے والدین کو بھی ضرور مطلع کریں گی۔‘‘
باتیں کرتے کرتے وہ اسکول کے دروازے پر پہنچ گئے، اسی لمحے گھنٹی بجنے لگی۔ ’’اچھا، اسکول کے بعد ملتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور دونوں اپنی اپنی کلاس کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔
ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی جگہ پا کر وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔
’’کہاں ہوں میں؟‘‘ وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق بدحواس ہو کر بڑبڑایا۔ تب اسے یاد آیا کہ رات کو وہ غیر قانونی طور پر ایک گھر میں گھسا تھا۔ اس نے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر کسل مندی دور کی اور سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا۔ گھر کے دوازے کے پاس بہت سارے خطوط پڑے تھے جو صبح صبح ڈاکیے نے آ کر پھینکے تھے۔ اس نے یہ جاننے کے لیے کہ گھر میں کون رہتا ہے، ایک لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لکھا تھا، جون اینڈ سوزن مک ایلسٹر۔ اس نے منھ بنا کر کہا: ’’ایک تو اس فضول ٹاؤن میں مک ایلسٹرز بہت رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے خط پھینک دیا لیکن پھر اچانک ایک خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی لفافے میں رقم ہو۔ اس نے جلدی جلدی سارے لفافے پھاڑ کر دیکھ لیے لیکن کسی میں بھی پیسے نہیں تھے۔ واپس باروچی خانے میں آ کر کھانے کی چیزیں تلاش کرنے لگا لیکن الماری میں سیریل کے پیالے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس نے غصے میں پیالہ فرش پر پٹخ دیا، پھر ریفریجریٹر کھول کر کھانے پینے کی ساری چیزیں فرش پر بکھیر دیں۔
ایک بوتل میں ٹماٹر کی چٹنی دیکھ کر بولا، لگتا ہے یہاں ہر شخص ٹماٹر کی چٹنی کا دیوانہ ہے۔ وہ بوتل لے کر لیونگ روم میں آ گیا اور چھت ایک گول دائرہ بنا ڈالا۔ پھر ٹی وی اور صوفوں پر چٹنی ڈال دی۔ پورے گھر کا خانہ خراب کر کے اس نے دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کر دیا اور قلعہ آذر کی طرف چل دیا۔
(جاری ہے)

Comments