اشتہار

ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

- Advertisement -

جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

(جاری ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں