نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’گدھے، بے وقوف … یہ کیا کر دیا۔ اب وہ ہمارے پیچھے لگ جائیں گے۔‘‘ جادوگر پہلان نے دانت نکوس کر کہا۔ ’’اٹھو اور میرے پیچھے آؤ۔‘‘ ڈریٹن بد حواس ہو کر اٹھا اور چوہوں، چمگادڑوں اور دوسری انجانی زندہ چیزوں کو بھول کر تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔ غار میں پہنچ کر اس کی سانسیں پھول گئی تھیں اور وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا تھا۔ سرنگوں کو دیکھ کر اس نے کہا: ’’کہاں سے جانا ہے؟‘‘
یہ سن کر پہلان نے قہقہہ لگایا۔ ’’ان میں سے کون سی سرنگ ہے جو تمھیں یہاں سے آزادی دلا سکتی ہے؟ یہ میں تمھیں نہیں بتاؤں گا۔ تم ایک اجڈ، گنوار اور گاؤدی ہو۔ اپنا راستہ خود تلاش کرو۔ اسی طرح ہی تم انسان کے بچے بنو گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دھوئیں کی صورت تحلیل ہو کر غائب ہو گیا۔ اِس کے ساتھ ہی وہاں جلنے والی بے شمار روشنیاں بھی گُل ہو گئیں، صرف اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ تھی جس کی روشنی مدھم پڑنے لگی تھی۔
’’بہت بہت شکریہ جادوگر!‘‘ ڈریٹن جَل کر چلّایا۔ اوپر سے آنے والی آوازیں نزدیک ہو رہی تھیں۔ وہ دوڑ کر ایک سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا، اور یہ سوچ کر کہ اسے آزمانا چاہیے، اس میں داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا، ٹارچ بھی بجھنے لگی تھی۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس کے چہرے پر مکڑی کے جالے چپک گئے تھے، جنھیں وہ جلدی جلدی ہٹانے لگا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی اوپر کر کے ادھر ادھر دوڑائی، اور حیران رہ گیا۔ مکڑی کے ہزاروں کی تعداد میں جالوں سے ایک بہت بڑا جال بن گیا تھا جس میں بلا مبالغہ ہزاروں مکڑیاں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں، ان میں سے بعض بڑی جسامت والی ٹرنٹولا بھی تھیں۔ وہ مڑ کر جانے لگا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اوپر بے شمار مکڑیاں چپک گئی ہیں۔
’’ہٹ جاؤ، دور ہٹو مجھ سے۔‘‘ وہ پوری قوت سے ایسے چلایا جیسے اس کے چیخنے پر وہ ہٹ جائیں گی۔ اس کی آواز گونجتی ہوئی، غار کی طرف چلی گئی۔ وہ مکڑیاں جھٹک کر جوتوں سے مسلنے لگا لیکن ان کی تعداد بہت تھی اور وہ اتنی تیزی سے ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی ٹارچ کی روشنی ایک جالے کی طرف تھی، یکایک اس نے دیکھا کہ جالہ جھلسنے لگا ہے اور مکڑیاں تیزی سے دور ہونے لگی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے ٹارچ کی روشنی اپنے اوپر موجود مکڑیوں کے قریب کر دی اور وہ فرش پر گر پڑیں۔ اس سے پہلے کہ اس پر مزید مکڑیاں دھاوا بولتیں، وہ دوڑ کر سرنگ سے نکل گیا۔ غار میں پہنچ کر اس نے ایک اور سرنگ پر نظریں جما دیں۔
اسے لگا کہ یہ والی سرنگ ایسی لگ رہی ہے جیسے دریائی ہو، یقیناً دریا کے پانی کی طرح یہ باہر ہی کو جائے گی، لہٰذا اسی میں جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ دوسری سرنگ میں داخل ہو گیا۔
(جاری ہے…)

Comments