محسن بھوپالی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے، وہ اردو کے نام وَر اور نہایت معتبر شاعر ہیں جن کی ایک مشہور غزل کا پیشِ نظر شعر آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی محفوظ ہو گا۔
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچّی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
ممکن ہے کہ آپ نے یہ شعر نہ سنا ہو، لیکن اُس مہک سے ضرور واقف ہوں گے جو خاصے عرصے بعد ہونے والی بارش میں زمین کے وجود سے اٹھتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوندھی سوندھی خوش بُو ہر آنگن اور میدان کی کچّی مٹی میں بے تابی سے برکھا رُت کا انتظار کررہی تھی۔ اس مہک کو سائنسی زبان میں Petrichor (پیٹریکور) کہتے ہیں۔
کئی عطر ساز کمپنیوں نے بھی اس قسم کی خوش بُو تیّار کی ہے جو بازار میں عام دست یاب ہیں۔
خرد حیاتیات کے ماہرین کے مطابق مٹّی میں کئی جراثیم موجود ہوتے ہیں اور جب کوئی گیلی مٹّی کو سونگھتا ہے تو دراصل اُس مالیکیول کو سونگھ رہا ہوتا ہے جسے سائنس جیوسمن کے نام سے شناخت کرتی ہے جب کہ اس مالیکیول کو جنم دینے والے جرثومے کا نام اسٹریپٹو مائسیز ہے۔
یہ مالیکیول اُس وقت ہوا میں منتشر ہوجاتا ہے، جب بارش کے قطرے مٹّی سے ٹکراتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کچّی مٹی مہکنے لگتی ہے۔