تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

والدین اپنے بچوں سے اس طرح کے جملے ہرگز نہ کہیں

والدین کبھی اپنے بچوں کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے، نہ زبان سے اور نہ ہاتھ سے، لیکن ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ تھکے ہوئے ہوتے ہیں، بچے آپ کو مسلسل تنگ کر رہے ہوتے ہیں اور آپ انہیں اپنے کھانے کی پلیٹ صاف کرنے یا کسی کے آنے پر دروازہ بر وقت کھولنے کا ہزار ہا مرتبہ کہہ چکے ہوتے ہیں لیکن اس ہدایت پر عمل نہیں ہوتا تو آپ نا دانستہ طور پر وہی باتیں دہراتے ہیں جو آپ نے بچپن میں سنی ہوتی ہیں اور یوں انجانے میں بچے کو ذہنی و جذباتی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

والدین اپنے پوری کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی، بلکہ اکثر اوقات، بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ کون سے ایسے جملے ہیں جو بچوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور والدین اکثر استعمال کر جاتے ہیں۔ زبان میں تھوڑی سی احتیاط آپ کی اولاد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

تو آئیے چند ایسے جملوں کے بارے میں جانتے ہیں جو عموماً والدین ادا کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے بجائے بچوں کو کیا کہنا چاہیے۔

 "یہ تو کوئی بڑی بات نہیں”

بچے اکثر ایسی چیزوں پر روتے دھوتے نظر آتے ہیں جو سراسر بے وقوفانہ حرکت لگتی ہے۔ جب بچے رو دھو رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے والدین کو زچ کر دیتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی ایسی بات پر رو رہے ہوں جو بہت معمولی ہو لیکن ان کو منہ بند رکھنے کا کہہ کر حقیقی احساسات کو روندنا درست طرزِ عمل نہیں ہے۔

پازیٹو پیرنٹنگ سلوشنز کی بانی اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک کتاب کی مصنفہ ایمی میک کریڈی کہتی ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل، اور ان سے جڑے جذبات، واقعتاً بچوں کے لیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جب ہم ان کے حقیقی چیلنجز پر جذباتی ردِ عمل کو روکتے ہیں تو دراصل ہم انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کی احساس کی کوئی قدر نہیں ہے یا پھر یہ کہ کسی بھی بات پر مایوس ہونا یا پریشان ہونا بے وقوفانہ بات ہے۔

اس کے بجائے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے بیٹھیں اور بچے کے زاویے سے اس معاملے کو دیکھنے کی کوشش کریں، میک کریڈی کہتی ہیں کہ بچے سے کہیں کہ تم بہت پریشان یا خوف زدہ یا مایوس لگ رہے ہو۔

اس سے بچے کو یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کو ان کے جذبات کا احساس ہے جو اس کے جذبات کو پروان چڑھانے میں مدد دے گا اور ساتھ ہی وہ سمجھے گا کہ آپ اس کے مددگار ہیں۔

 "تم ہمیشہ ایسا کرتے ہو، تم کبھی ایسا نہیں کرتے”

بچوں کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں لیکن یہ بچے سے بات کرتے ہوئے "ہمیشہ” اور "کبھی نہیں” جیسے الفاظ حقیقت کو بیان نہیں کرتے۔

پیرنٹنگ فار کنکشن کے بانی رابن میک مین کے مطابق قطعیت کے کی گئی بات سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس طرح کی بات کر کے آپ بچے کی نظر سے اس معاملے کو دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے آپ موقع ضائع کرتے ہیں بچوں کو سکھانے کا کہ انہیں کیا برتاؤ کرنا چاہیے اور آئندہ کیا کرنا چاہیے۔

اس کے برعکس سوچیں کہ آپ کا بچہ کسی خاص وقت میں کوئی مخصوص حرکت کیوں کرتا ہے۔ میک مین کا کہنا ہے کہ اس خاص لمحے میں اپنے بچے سے قربت اختیار کریں، اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ گھر کے کسی بھی کھونے کھدرے سے بچے پر چیخنے چلانے کے بجائے یقینی بنائیں کہ اس وقت آپ بچے کے ساتھ ہوں۔

 "تمہاری یہ حرکت دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے”

جب بچے بات نہیں سنتے تو بہت پریشانی ہوتی ہے لیکن جذبات کا کھیل کھیلنے سے پہلے حدود کو طے کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ احساسات آپ کے ہیں، اُن کے نہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایسی کوئی بھی حرکت کر کے ایک مثال قائم کرتے ہیں جو ان کو بہت سی منفی طاقت دیتی ہے۔

میک کریڈی کہتی ہیں کہ جب بچوں کو لگتا ہے کہ آپ کی خوشی، افسردگی اور خفا ہونے کے بٹن اُن کے ہاتھ میں ہیں تو وہ بارہا اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ اس سے آپ کے مستقبل کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ دوسرے لوگوں سے بھی کام نکلوانے کے لیے ایسی ہی حرکتیں کریں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ حدود طے کریں، مثلاً بستر یا صوفوں پر اچھلنے پر پابندی لگائیں، لیکن ساتھ ہی انہیں دوسرا راستہ بھی دکھائیں کہ یہاں بیٹھنا ہے تو خاموش بیٹھنا ہے اور کھیلنا ہے تو خاموشی سے باہر چلے جائیں۔

 "تمہیں پتہ ہونا چاہیے”

جب آپ بچے سے کہتے ہیں کہ "تمہیں پتہ ہونا چاہیے” تو آپ دراصل بچے کو شرمندہ کر کے اسے تبدیل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بچہ اپنے دفاع میں چلا جاتا ہے، یوں وہ آپ کی بات پر دھیان نہیں دیتا اور ان کے اعتماد میں بھی کمی آتی ہے۔ میک کریڈی کہتی ہیں کہ "جب آپ بچے کو کہتے ہیں کہ تمہیں پتہ ہونا چاہیے تو اسے یہ پیغام جاتا ہے کہ تم اتنے بے وقوف ہو یا ناپختہ شخصیت رکھتے ہو کہ تم سے کوئی درست فیصلہ بھی نہیں ہوتا۔ چاہے ہمارا مقصد یہ نہ ہو، پھر بھی بچہ یہی سمجھے گا، جو اس کی شخصیت کے لیے درست نہیں ہے۔

اس کے میک کریڈی تجویز کرتی ہیں کہ یہ کہنا بہتر ہے کہ لگتا ہے کوئی مسئلہ ہو گیا ہے! تو بتاؤ اسے ٹھیک کرنے کے لیے کیا کریں؟ یعنی ہماری گفتگو کا ہدف مسئلے کا حل ہونا چاہیے، مسئلہ نہیں۔ اس سے بچہ مسائل کو حل کرنے اور اپنی غلطیوں کی خود اصلاح کرنے کے قابل بنے گا اور بہتر سے بہتر فیصلے کی صلاحیت پائے گا۔

 "تم چھوڑو، مجھے خود کرنے دو”

جب آپ کو جلدی ہو اور آپ دروازے پر کھڑے بچے کا انتظار کر رہے ہوں کہ جو کسی معمولی سے کام میں پھنسا ہوا ہو تو انتظار بہت طویل اور کڑا لگتا ہے۔ فطرتاً آپ یہی چاہیں گے کہ وہ کام خود کر لیں۔ لیکن جہاں تک ممکن ہو اس سے اجتناب کریں۔

میک کریڈی کے مطابق دراصل بچے کے کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے دراصل آپ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس کام کا بھی اہل نہیں ہے، اس لیے مجھے مداخلت کرنا پڑی۔ یہ حوصلہ شکنی ہے اور بچے کے لیے کافی مایوس کن بات ہے۔ بچہ جیکٹ کی زپ بند کرنے کے بہت قریب ہے، وہ متعدد بار کوشش کر چکا ہے اور بس بند کرنے ہی والا ہوتا ہے کہ ابو آ کر یکدم یہ کام انجام دے دیتے ہیں اور اس کی کوشش لا حاصل ہو جاتی ہے۔

کوشش کریں کہ بچے کو اپنا کام کرنے کے لیے پورا وقت دیں۔ یا پھر کم از کم اس پر واضح کر دیں کہ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے۔ یہ کہیں کہ "میں صرف اس بار تمہاری مدد کر رہا ہوں کیونکہ ہمیں بہت دیر ہو رہی ہے، لیکن بعد میں ہم مل کر کام کریں گے!”

 "تم تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو”

میک مین کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بچے کو کوئی بھی نام دینے سے گریز کریں۔ ان سے والدین اور بچوں کے باہمی تعلقات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ والدین بچوں کے رویّے کو اس نام کے ساتھ جوڑنے لگ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ اس کو سمجھیں اور مدد کریں۔

والدین انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس کا بچوں کی شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے اور وہ اس بات پر حقیقت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ "میرا بچہ بڑا ہوشیار ہے” کہنا بھی ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں ‘تم تو بڑے سیانے ہو’ تو ہم اپنے بچے کو یہ سبق دے رہے ہوتے ہیں امتحان میں کامیابی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ذہین ہے یعنی اگر یہ فطری صلاحیت نہ ہوتی تو وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اگر بچہ اگلی مرتبہ ناکام ہو جائے تو کیا ہوگا؟ وہ پریشان ہو جائے گا اور اس کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور وہ اپنی ہی صلاحیت پر سوال اٹھانا شروع کر دے گا۔

Comments

- Advertisement -