راجہ مہدی علی خاں کا نام تو شاید فن و ادب کے شیدائیوں نے سنا ہوگا، لیکن نئی نسل کے قارئین بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کے قلم کی روانی اور جولانیِ طبع سے بہت کم واقف ہوں گے۔ انھیں بیسویں صدی کا منفرد مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور دلوں پر اثر کرنے والے گیتوں کا شاعر مانا جاتا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔
راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ ادبی تذکروں میں لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں پاکستان کا حصّہ بنا۔ راجہ صاحب زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔
راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔
اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔
راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں انھوں نے بھارت میں لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔