تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

"زندگی کا نغمہ” جو اردو کے شیدائی رالف رسل کے قلم کی نوک سے نکلا

رالف رسل کو "بابائے اردو برطانیہ” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ اردو کی خدمت میں گزار دیا تھا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

یہاں ہم ان کا ایک مضمون جو انھوں نے اپنے ادبی کام سے متعلق تحریر کیا تھا، نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

میں 1918ء میں پیدا ہوا اور سولہ برس کی عمر میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہو گیا اور ابھی تک خودکو کمیونسٹ تصور کرتا ہوں۔

1946ء سے اب تک کمیونسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں پر بدعنوانی کے الزام بھی لگے اور کمیونسٹ تحریک کو زوال کا سامنا بھی رہا۔ حتّیٰ کہ سویت یونین کی متحدہ ریاست بھی ٹوٹ گئی مگر میرے خیال میں انسانی اقدار کو سمجھنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کا اب بھی بہترین ذریعہ کمیونسٹ تحریک ہی ہے۔

1937ء سے 1940ء تک میں نے اس نظریہ سے متعلق بہت سا مواد اور خطوط سینٹ جان کالج میں پڑھے تھے۔ ازاں بعد قریب چھے سال کا عرصہ میں نے فوجی ملازمت میں بھی گزارا ہے، جس میں سے قریب ساڑھے تین سال یعنی مارچ 1942ء تا اگست 1945ء کا عرصہ میں نے برطانوی فوجی کے طور پر انڈین فوج کے ساتھ، انڈیا میں گزارا ہے۔

اردو اس وقت فوج کی زبان تھی۔ میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ میں کسی طرح یہ زبان سیکھوں۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گفتگو کرکے اردو زبان سے واقفیت حاصل کروں۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ میں خود اردو مسودے پڑھنا شروع کر دوں۔ میں نے اردو زبان میں ہونے والے کارل مارکس اور لینن کے تراجم پڑھ کر اردو زبان میں کسی قدر مہارت حاصل کی۔

اس عرصہ کے دوران میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ میں اردو لٹریچر تک رسائی حاصل کرسکتا۔ البتہ جب میں نے فوج کی ملازمت کے بعد اورینٹل کالج آف لندن میں داخلہ لیا تو اردو کی بابت میرے اشتیاق نے مجھے اردو میں ڈگری حاصل کرنے پر اکسایا۔ چنانچہ 1949ء میں اردو اور معاون زبان کے طور پر سنسکرت میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک سال کے لیے مجھے لیکچرار کی آفر ہوئی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔

اس کے بعد میں تعلیمی چھٹیوں پر انڈیا اور پاکستان کے دورے پر چلا گیا۔ میرا زیادہ وقت علی گڑھ میں گزرا جہاں اس وقت کے عالم، ادیب اور اسکالر کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے کرتے میری اردو کافی بہتر ہو گئی۔ یہیں میری دوستی جناب خورشید اسلام سے ہوئی۔

1953ء تا 1956ء کے دوران خورشید اسلام کے ساتھ میں بطور "OVERSEAS LECTURER” منسلک رہا۔ اس عرصے میں ہم دونوں نے مل کر یہ طے کیا کہ ہم مشترکہ طور پر، ایک ایسی سلسلے وار کتاب تحریر کریں جس کی مدد سے انگلش بولنے والے لوگ اردو ادب بالخصوص مغل دور کے اہم شعرا کے علاوہ غالب کی بابت تفصیل سے معلومات حاصل کر سکیں۔

میں نے اپنی تقرری کے دوران تعلیمی نصاب میں بہتری کا عمل جاری رکھا اور ایک کورس ترتیب دے کر اپنی یونیورسٹی کے طلبا کی آسانی کے لیے 1980ء میں "آسان اردو” کے نام سے شائع کرایا اور کیسٹ کے ذریعے بھی عام کیا۔

1981ء میں "اردو نظم کے خاص میزان” کے نام سے بھی ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کے بعد بالغ انگریزوں کے لیے ایک ایسا کورس ترتیب دیا جس کی مدد سے وہ ہندوستان میں بسنے والے بچوں اور بڑوں کے ساتھ آسان اردو میں گفتگو کر سکیں۔ یہ قصہ 1981ء میں میری قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا ہے۔ جب میں یونیورسٹی سے ہٹ کر عام لوگوں کو وال تھم فوریسٹ، برمنگھم، بلیک برن، شوالے اور شیفیلڈ میں اردو سکھانے جایا کرتا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت عام لوگوں کو اردو سیکھنے کے لیے جو کورس میں نے ترتیب دیا تھا وہ ابتدائی مرحلے کا تھا مگر مجھے امید تھی کہ یہ ان اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے گا جہاں میں اور میرے ساتھی اردو پڑھانے جایا کرتے تھے۔ اس کورس کا نام "FOR LEARNERS IN BRITIAN” تھا۔ اگر یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں ابتدائی اردو سیکھنے والوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا تو ذخیرۂ الفاظ کے باعث کافی مفید ہوتا۔

اہم تصانیف، مضامین اس میں شامل نہیں ہیں۔

1۔ اپنی پہلی دو کتابیں میں خورشید الاسلام کے ساتھ مل کر لکھیں۔ پہلی کتاب کا عنوان تھا۔
Three Mughal Poets: Mir, Sauda, Mir Hasan

اس کتاب کو Harvard University Press,USA نے 1968ء میں شائع کیا۔ اس کا برطانوی ایڈیشن Allen and Unwin نے 1969ء میں شائع کیا۔

2۔ Ghalib: Life and Letters
اس کتاب کے بھی دو ایڈیشنز نکلے۔ اسے بھی Harvard University Press اور Allen and Unwin نے شائع کیا۔

باقی درج ذیل کتابیں میری اپنی ہیں۔

3۔ The Pursuit of Urdu Literature: A Select History
اسے انگلینڈ میں Zed Press اور ہندوستان میں Oxford University Press, India نے 1992ء میں شائع کیا۔

4۔ An Anthology of Urdu Literature
اسے انگلینڈ میں Carcanet نے اور ہندوستان میں Viking نے شائع کیا۔
یہ کتاب پہلی بار 1995ء میں شائع ہوئی، اور اس کا عنوان رکھا گیا: Hidden in the Lute
بعد میں عنوان بدل کر An Anthology of Urdu Literature کر دیا گیا اور اس کا پیپر بیک ایڈیشن 1999ء میں شائع ہوا۔

5۔ غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب: ترجموں کے ساتھ
اس کتاب میں غالب کے فارسی اشعار کے ساتھ افتخار احمد عدنی کا اردو ترجمہ اور میرا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ آمنے سامنے کے صفحات پر ایک طرف انگریزی ترجمہ اور ایک طرف فارسی متن اور اس کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کے تعاون سے 1997ء میں شائع کی۔

6۔ The Famous Ghalib
اس کتاب کو Roli Books نے ہندوستان سے 2000ء میں شائع کیا۔ اس میں غالب کی اردو غزلوں کا انتخاب اور اس کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشعار کا متن اردو، دیوناگری اور رومن میں دیا گیا۔

7۔ How Not to Write the History of Urdu Literature and Other Essays on Urdu and Islam

اسے Oxford University Press, India نے 1999ء میں شائع کیا۔

8۔ The Oxford India Ghalib: Life, Letters and Ghazals
یہ کافی ضخیم کتاب ہے اور 572 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں سے اکثر چیزیں وہ ہیں جو پہلے بھی شائع ہو چکی تھیں لیکن آخری حصے میں غالب کی فارسی شاعری پر الیساندرو بوسانی (Alessandro Bausani) کا مضمون ہے اور فارسی غزلوں کا انتخاب اور میرا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ یہ کتاب Oxford University Press, India سے 2003ء میں شائع ہوئی۔

9۔ The Seeing Eye: Selection from the Urdu and Persian Ghazals of Ghalib
یہ کتاب الحمرا، پاکستان نے 2003ء میں شائع کی۔ اس میں غالب کی اردو اور فارسی غزلوں کا وہی انتخاب اور ترجمہ ہے جو Oxford India Ghalib میں ہے لیکن اس میں انگریزی ترجمے کے ساتھ اردو اور فارسی متن شامل نہیں ہے۔

10۔ اردو ادب کی جستجو
یہ The Pursuit of Urdu Literature کا اردو ترجمہ ہے جو محمد سرور رِجا نے کیا ہے۔ اسے انجمن ترقی اردو پاکستان نے 2003ء میں شائع کیا۔

Comments

- Advertisement -