پاک و ہند کی تقسیم کے وقت فسادات اور ان گنت خوں آشام واقعات میں ہر مذہب اور قومیت کے ماننے والے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے اور ہزاروں لوگ بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ سرحدی لکیر کے باعث بٹ جانے والی زمین نے انسان کی بے رحمی کا وہ منظر دیکھا کہ خود انسانیت بھی اس پر کانپ اٹھی۔ رام لعل کو بھی فسادیوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ ایک بالغ نظر اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے ہندو تھے جو زمین کے بٹوارے کو تو شاید قبول کرلیتا مگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کا بٹ جانا اسے قبول نہیں تھا، لیکن لاکھوں کی آبادی میں ان جیسے دردمند اور بلاتفریقِ ملّت و مذہب انسانوں سے پیار کرنے والے بہت کم تھے۔
رام لعل اردو ادب کے بڑے افسانہ نگار اور بلند پایہ ادیب تھے۔ انھوں نے تقسیمِ ہند اور ہجرت کے واقعات اور مختلف انسانی المیوں کی کہانیاں لکھیں اور تذکرہ نویسی کے ساتھ رام لعل نے شخصیات کے قلمی خاکے بھی تحریر کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ ’زرد پتوں کی بہار‘ کے نام سے رام لعل نے پاکستان یاترا کی کہانی بھی رقم کی تھی۔ فسادات کے موقع پر ریل میں انھیں بھی بلوائیوں نے گھیر لیا تھا، اور اس واقعے کو رام لعل نے بعد میں اپنی خود نوشت بعنوان کوچۂ قاتل میں رقم کیا۔ ملاحظہ کیجیے:
میں تو اپنے ڈبے میں واپس آگیا۔ ملک وزیر چند نے بہت ہی گھبرائے ہوئے لہجے میں کھڑکی میں سے مجھے پکارا:
”رام لعل ذرا باہر آنا…!“ باہر جا کر میں نے دیکھا۔ انہیں سکھوں اور ہندوؤں کے ایک گروہ نے گھیر رکھا ہے۔ ملک صاحب نے کہا:
”یہ لوگ کہتے ہیں، میں مسلمان ہوں…!“ مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ لیا اور کئی لوگ بہ یک زبان ہو کر بولے:
”ہاں ہاں! تم دونوں مسلمان ہو! پاکستان جانے کا راستہ نہیں ملا تو دلّی کی طرف بھاگ رہے ہو!“
ہم دونوں نے شلوار قمیص پہن رکھی تھیں۔ ملک وزیر چند کے بڑے بڑے گل مچھے تھے۔ ہمارے سروں کے بال عین بیچ میں سے تقسیم ہوتے تھے اور بکھرے ہوئے تھے… ہماری بھوری بھوری آنکھیں ان لوگوں کی آنکھوں کی رنگت سے بالکل جدا تھیں۔ میں سمجھ گیا، وہی کہانی پھر دہرانی پڑے گی۔ ہمارا تعلق مغربی پنجاب سے ہےِ، وہاں کی آب و ہوا اور بود و باش کی وجہ سے ہمارے لہجے مختلف ہیں اور پھر اچانک میری زبان سے یہ بھی نکل گیا ”قرآن ساں (قرآن کی قسم) ہم ہندو ہیں…!“
”دیکھا دیکھا! سالے مسلے ہیں، قرآن کی قسم کھاتے ہیں، میں نہ کہتا تھا۔“
میں نے انہیں سمجھایا:
”یہ ہمارا روایہ ہے۔ اسی علاقے کا، ہم وہاں قرآن ہی کی قسم کھاتے تھے، لیکن ہم مسلمان نہیں ہیں ہمارا یقین کرو۔“
انہیں تب تک یقین نہیں ہوا۔ جب انہوں نے ہماری شلواریں کھلوا کر اطمینان نہیں کر لیا، لیکن یہ واقعی ہم دونوں کے لیے بے حد باعث شرم تھا۔ ملک صاحب مجھ سے عمر میں کافی بڑھے تھے اور لاہور میں ’سرپرست‘ ہونے کے ناتے سے میرے والد کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں انہیں چاچا جی کہہ کر ہی بلاتا تھا، لیکن فسادیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔