تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

نہر پار کرکے لاہور آنے والی مسلمان لڑکی کیوں مشہور ہوئی؟ تفصیل جانیے

واہگہ باڈر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر "پُل کنجری” کی طرف جانے والے آج بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مہارانی موراں کا نام لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ آج یہ پُل اور یہ مقام صرف تاریخ کی ایک نشانی اور اس عشق کا وہ حوالہ ہیں‌ جب ایک مہاراجہ نے ناچنے والی ایک عورت کو اس کی ذات اور اس کا مسلک، سماج میں اس کے مقام و مرتبے دیکھے بغیر اپنا دل دے دیا تھا، لیکن ہر دن اس راہ گزار کے مٹتے ہوئے وجود کے ساتھ وہ داستانِ الفت بھی تازہ ہوتی جارہی ہے جو تاریخ کا حصّہ ہے۔

کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ اس کا رقص مشہور تھا۔ قسمت نے یاوری کی تو اسے پنجاب میں شاہی برادری نے رقص کے لیے طلب کرلیا، وہاں 21 سالہ رنجیت سنگھ بھی موجود تھا جو اس طوائف پر دل ہار بیٹھا۔ اب موراں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر اکثر لاہور آنا پڑتا تھا۔

مشہور قصّوں اور روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ وہ ہنسالی نہر کے راستے آرہی تھی تو اس کی جوتی پانی میں‌ جا گری۔ وہ ننگے پاؤں دربار پہنچی جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نظر اس کے پیروں پر پڑی۔ مہارجہ نے آتشِ عشق کو چھپائے اپنی موراں سے ماجرا دریافت کیا تو اس نے راستے کی دشواری اور نہر سے گزرنے کی پریشانی بتا دی۔ رنجیت سنگھ نے حکم دیا کہ نہر پر جلد سے جلد پُل تعمیر کیا جائے۔ یہ پُل کنجری کے نام سے مشہور ہوا جو کسی ناچنے والی کے لیے بولا جانے والا مقامی زبان کا لفظ ہے لیکن بعد میں اسے پُل موراں کہا جانے لگا۔

رنجیت سنگھ نے اظہارِ عشق کر دیا تھا اور اب دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں اور مشہور ہے کہ وہ پُل موراں کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کرتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پالنے کا شوق اور شراب کی لت کے علاوہ اس کا رومان پرور ہونا بھی مشہور ہے، لیکن موراں‌ وہ لڑکی تھی جس کے لیے اس نے خود کو یکسر مختلف ثابت کر دکھایا اور سماج اور مذہب کی مخالفت کے باوجود محبّت کو اپنایا اور نبھایا بھی۔

وہ ضد کا پکّا تھا۔ ایک مسلمان لڑکی سے ایسا نباہ کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکم ران رنجیت سنگھ تھا جس نے شادی کے بعد اپنی محبوبہ کے نام کا سکّہ جاری کیا اور ایک طوائف کو موراں سرکار کے نام سے سماج و برادری میں اعلیٰ درجے پر فائز کیا۔

موراں کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ حسن و جمال اور قد و قامت میں بے مثال تھی بلکہ رنجیت سنگھ اس کی ذہانت اور عقل و دانش کا بھی قائل ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ تخت لاہور پر بیٹھا تو مکھن پور گاؤں کی موراں کے لیے رشتہ بھیج دیا اور مشہور ہے کہ لڑکی کے باپ نے سخت شرائط رکھ دیں۔ رنجیت سنگھ نے تمام شرطیں پوری کیں اور برادری کو بڑی عزت و تکریم دی۔

رنجیت سنگھ کی حکومت خالصہ سرکار کہلاتی تھی جو سکھوں کے سب سے با اختیار اکال تخت کے احکامات اور ہدایات کی پابند تھی۔ اکال تخت کے جتھے داروں کو مہاراجہ کا ایک مسلمان لڑکی کی زلفوں کا اسیر ہو کر شادی کے لیے یوں پیغام بھیجنا ہرگز پسند نہ آیا اور ان کی جانب سے سخت اعتراض کیے گئے۔ اکال تخت نے رنجیت سنگھ کو طلب کیا تو اس نے بلا تأمل اقرارِ عشق کر لیا۔ اسے کوڑوں کی سزا سنائی گئی جو اس نے بخوشی قبول کرلی اور صاف کہہ دیا کہ وہ موراں کو نہیں‌ فراموش کرسکتا۔ کہتے ہیں ایک کوڑا مارنے کے بعد اس پر پنچایت نے جرمانہ کرکے چھوڑ دیا تھا۔

رنجیت سنگھ کے حرم میں داخل ہونے والی موراں کو سرکاری طور پر مہارانی کا درجہ دیا گیا۔ شادی کے بعد موراں لاہور آگئی جہاں حویلی کے ساتھ ایک مسجد بنوائی جو مسجد طوائف کے نام سے مشہور تھی اور بعد میں اس کا بھی نام بدل کر مسجدِ موراں رکھ دیا گیا۔

رنجیت سنگھ کی غریب پروری اور رفاہِ عامّہ کے کاموں میں موراں کا بہت کردار رہا جس کی وجہ سے لوگ اسے موراں سرکار اور مائی موراں کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ وہ عام لوگوں اور مہاراجہ کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتی رہی اور لوگوں کی حاجت روا ثابت ہوئی۔ موراں شادی کے دس سال بعد پٹھان کوٹ منتقل ہوگئی تھی۔ مائی موراں نے 1862ء میں وفات پائی۔ وہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

Comments

- Advertisement -