تازہ ترین

زیادتی کا شکار طالبہ کو مردہ بچے کی پیدائش پر 30 سال قید

وسطی امریکی ملک ایل سلواڈور میں زیادتی کا شکار ایک نوعمر طالبہ کے یہاں مردہ بچے کی پیدائش پر اسے 30 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ اس نے بچے کی مناسب نگہداشت نہیں کی جس کے باعث اس کی موت واقع ہوگئی۔

سلواڈور کے ایک قصبے سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ طالبہ ایویلین کروز کو گزشتہ برس جرائم پیشہ گروہ کے ایک رکن کی جانب سے زبردستی جنسی تعلق رکھنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی۔

نو عمر طالبہ کو اپنے حاملہ ہونے کا اندازہ نہیں ہوا حتیٰ کہ آخری دنوں میں اس کی والدہ اسے پیٹ میں شدید درد کی شکایت کے باعث اسپتال لے گئیں جہاں اس پرانکشاف ہوا کہ وہ بچے کو جنم دینے والی ہے۔

بعد ازاں طالبہ نے بچے کو باتھ روم میں جنم دیا جو مردہ تھا۔ ڈاکٹرز یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ آیا بچے کی موت پیدائش سے قبل واقع ہوچکی تھی یا دنیا میں آنے کے بعد ہوئی۔

سلواڈور میں اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کے باعث مردہ بچے کی پیدائش کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور جاں بہ لب طالبہ کو اسپتال کے بستر پر اس وقت ہتھکڑیاں لگا دی گئیں جب وہ متعدد انفیکشنز اور طبی پیچیدگیوں کا شکار تھی۔

بعد ازاں مقدمہ عدالت میں چلا اور جج نے طالبہ کو بچے کی صحیح نگہداشت نہ کرنے کے جرم میں 30 سال قید کی سزا سنا دی۔

اسقاط حمل پر پابندی کا قانون

وسطی امریکی ملک ایل سلواڈور دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے جہاں اسقاط حمل کو جرم قرار دے کر ہر قسم کے حالات میں اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

اس بدترین قانون کی وجہ سے لاکھوں غریب اور نوجوان خواتین قتل کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں جن کا نومولود بچہ مختلف پیچیدگیوں کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

اس قانون سے وہ خواتین بھی مستثنیٰ نہیں جو اسمگلنگ یا زیادتی کے نتیجے میں حاملہ ہوئی ہوں۔

نو عمر طالبہ ایویلین کروز کی سزا کے بعد ملک بھر میں ایک بار پھر اس قانون پر تنقید شروع ہوگئی حتیٰ کہ قانونی ماہرین نے بھی اس فیصلے کو سراسر ناانصافی قرار دیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا جانے والا اسقاط حمل نہیں بلکہ مس کیرج ہے جس کا علم طالبہ کو نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

ملک کی پارلیمان مذکورہ قانون کو نرم کرنے کے لیے بہت جلد ایک بل بھی پیش کرنے والی ہے جس کے بعد کم از کم زیادتی کا شکار خواتین اس قانون سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -