رشید امجد کے سانحۂ ارتحال پر رنجیدہ و ملول سلام بِن رزّاق نے بتایا کہ رشید امجد کا افسانہ "بگل والا” بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں بارہویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار اور مترجم سلام بِن رزّاق مہاراشٹر اردو رائٹرز گِلڈ کے صدر ہیں جن کے مطابق حال ہی میں رشید امجد کا افسانہ نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوچکا ہے اور مختلف ویب سائٹوں پر گوشۂ ادب میں بھی قارئین کی بڑی تعداد نے اسے پڑھا اور سراہا ہے۔
5 مارچ 1940ء کو کشمیر میں پیدا ہونے والے رشید امجد پاکستان کے نام وَر افسانہ نگار، نقّاد اور دانش وَر کی حیثیت سے بھارت میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 3 مارچ 2021ء کو ہوا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے رشید امجد کو ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ بھی عطا کیا تھا۔ وہ کئی اہم ادبی رسالوں کے مدیر رہے ہیں۔
اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر رشیدامجد کہتے ہیں:
”میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ جیسے سب سَر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہوگا، ہماری رائے کی اہمیت ہوگی۔ یہ خواب سہی، میری بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔”
ایک انٹرویو کے دوران رشید امجد نے بتایا تھاکہ وہ کیسے لکھنے کی طرف مائل ہوئے:
”ایک ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں فارغ وقت میں پڑھتا رہتا تھا۔ وہیں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ یوں میں نے لکھنا شروع کیا اور پھر مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ”
رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں ہوا جس کے اثرات ان کے ابتدائی افسانوی میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب انھوں نے فکری پختگی کی نئی منزلوں کا سفر طے کیا تو دوسرا مارشل لاء جمہوریت کی بساط لپیٹ چکا تھا۔ یہ افسانے جبر کے دور میں لکھے گئے۔ اگرچہ اس دور کو معروف معنوں میں علامتی و تجریدی نام دیا گیا، لیکن اس تکنیک میں سادہ لفظوں میں پوشیدہ معنٰی کےجہان آباد ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں:
رشید امجد کا شعری لہجہ، علامتی اظہار اور تجریدی ڈھانچہ سب مل کر اس کے فن کی ایک نمائندہ جہت اور اس کا منفرد تشخص قائم کرتے ہیں۔ اس نے ٹھوس کہانی کو گرفت میں لینے اور سماج کی اصلاحی خدمت سَر انجام دینے کے بجائے اس تاثر کو پکڑنے کی سعی کی جو تجربے کے مرکز میں سیال صورت میں موجود ہوتا ہے اور اکثر شعری انداز میں افسانہ نگار کی طرف سفر کرتا ہے۔
رشید امجد کے افسانوں میں معاشرے کی انفرادی و اجتماعی سطح کے لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ، کرب اور بے چینی کی مختلف کیفیات دکھائی دیتی ہیں۔
نام ور افسانہ نگار رشید امجد کے افسانوی مجموعوں اور دیگر موضوعات پر کتابوں میں ”ایک عام آدمی کا خواب، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، ریت پر گرفت، پاکستانی ادب تنقید، پت جھڑ میں خود کلامی، تمنّا بے تاب، ست رنگے پرندے کے تعاقب میں” شامل ہیں۔