تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

ہندوستان کے بٹوارے اور تقسیم کے کئی سال بعد بھی بھارت میں متعصب اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اردو کی مخالفت میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہر سطح پر اردو بولنے اور لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔

اس زمانے میں اردو بولنا اور لکھنا جیسے جرم تھا اور یہ سوچ مذہبی شخصیات اور عوام ہی تک محدود نہیں‌ تھی بلکہ علم و دانش اور ادب سے وابستہ افراد نے بھی اس حوالے سے تنگ نظری اور پستی کا ثبوت دیا، لیکن بعض عالی دماغ اور روشن نظریات و خیالات رکھنے والی شخصیات نے اسے علم دشمنی اور صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کا قتل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔

معروف ہندوستانی ادیب رتن سنگھ نے اسی حوالے سے بیسویں صدی کے نام وَر شاعر، ادیب اور نقّاد فراق گورکھپوری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو ہم یہاں اپنے باذوق قارئین اور علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

‘فراق صاحب ریڈیو کے پروڈیوسر ایمریٹس تھے، اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی ریکارڈنگ کے لیے اُنہیں فیس کا چیک دیا جائے۔ ایسی صورت میں فراق صاحب کو یہ سمجھانا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔

اس معاملے کے حل کے لیے میں نے ایک صورت یہ نکال لی کہ الٰہ آباد سے لکھنؤ آنے کا کرایہ اور ڈی اے وغیرہ دے دیا جائے۔ میں یہی کرتا تھا۔

فراق صاحب اسی پر ہی ریکارڈنگ کے لیے راضی ہوجاتے تھے، لیکن ایک بار ایک نئی قسم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔

فراق صاحب کو اُردو زبان اور اس کے مستقبل کے بارے میں بولنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے وہ اتنی کڑوی باتیں بھی کر گئے کہ اگر اُنہیں نشر کردیتا تو واویلا کھڑا ہوجاتا۔

ہزاری پرساد دیویدی اور نہ جانے کس کس کو اُردو کے حق سے محروم رکھنے کی شکایت کرتے ہوئے اُنہوں نے صاف صاف کہا کہ اے ہندوﺅ! میری مراد آر ایس ایس والے ہندوﺅں سے ہے، اور میں اُنہی کے لب و لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، پاکستان دشمن ہو رہا ہے۔ اگر دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، اپنے ملک میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ اُن کی زبان نہیں سمجھوگے تو بھی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتیں کرکے فراق صاحب چلے گئے۔

پھر الٰہ آباد سے مجھے لکھا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کو براڈ کاسٹ کرنے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ دیکھ لینا غور سے۔’

Comments

- Advertisement -