جھوٹ بولنا یقیناً ایک بُری عادت ہے، ایسے لوگ جھوٹی انا کی تسکین، مفادات کے تحفظ اور اپنا جرم چھپانے کیلئے ہرممکن جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جھوٹ چاہے جان کر یا اَنجانے میں بولا جائے وہ لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کردیتا ہے اور کبھی کبھار لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابے کا ذریعہ بن کر بڑے فساد کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ انسان چاہے جتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولے اس کا انداز اور الفاظ کہیں نہ کہیں اس کے جھوٹ کا پردہ چاک کردیتے ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ سامنے والا اس جھوٹ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اس حوالے سے گزشتہ سال کی جانے والی ایک تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جھوٹ بولنے والے شخص کا انداز کیسا ہوتا ہے اور وہ کیا چالاکیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹ بولتے وقت یا غلط بیانی کرتے ہوئے اکثر لوگ انتہائی دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔
نیچر کمیونیکیشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے جس میں صرف آواز کی شدت اور جھوٹ کے درمیان تعلق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ماہرین کے تجزیے کے مطابق جھوٹے لوگ جملے کے درمیان میں اداکردہ الفاظ پر زور کم دیتے ہیں اور یوں ان کی آواز بھی جھوٹ کی چغلی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کی آواز میں غنایت (میلوڈی) اس کے سچ بولنے کی معلومات دے سکتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس وقت دماغ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور آواز دھیمی ہوتی چلی جاتی ہے اور یوں الفاظ پر زور بھی کم ہوجاتا ہے کیونکہ بولنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس کیفیت کو ’پروسوڈی‘ کہا جاتا ہے جس میں الفاظ اور جملوں کے بجائے آواز کے زیروبم کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کیفیت کا انگریزی، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں پر اطلاق ہوسکتا ہے یعنی تینوں زبانوں میں جھوٹ بولنے والے یکساں انداز سے بات کرتے ہیں۔
دوسری جانب اگر سچ بولنے والے شخص کا موازنہ کیا جائے کہ سچ بولنے اور مخلص ہونے کی دلیل کیا ہے تو اس کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ایماندار شخص لفظ کے آخر میں آواز کی خاص پچ کو بلند کرے گا اور وہ تیز رفتاری سے بات کرے گا۔
اس کے برخلاف جھوٹ بولنے والا فرد اپنی آواز کو دھیمی رکھے گا، الفاظ پر زور نہیں دے گا اور ان الفاظ کی رفتار بھی بہت دھیمی رہے گی۔