کنری، سندھ: 28 سالہ شاد بی بی فصل سے مرچیں توڑنے میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ ایک کمسن بچی، ایک شیر خوار بچے کو گود میں لیے موجود ہے۔ شیر خوار بچے نے رونا شروع کیا تو کچھ دیر بعد شاد بی بی نے مرچوں والے ہاتھوں سے ہی بچے کو اٹھایا اور اسے دودھ پلانے لگیں۔
ماں کے مرچ والے ہاتھ بچے کے چہرے پر لگے تو اس کے رونے میں اضافہ ہوگیا، تاہم تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پیتے ہوئے چپ ہوچکا تھا، اس کی سرخ جلد جلن اور سوزش کا پتہ دے رہی تھی۔
یہ ایک معمول کا منظر ہے جو کنری کی مرچوں کی فصلوں میں نظر آتا ہے، یہاں مرچ توڑنے والی خواتین کی جلد اور آنکھوں کی جلن اور دیگر مسائل عام ہیں۔
بچے بھی اس سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں، پورے شہر کی فضا میں مرچوں کی دھانس ہے جو یہاں رہنے والوں کا سانس لینا دو بھر کیے ہوئے ہے۔
صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے اور یہاں لگنے والی منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے، تاہم مرچ کے کھیتوں اور منڈی میں کام کرنے والے کاشت کاروں اور تاجروں کی زندگی اتنی آسان نہیں۔
سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور کنری، ضلع عمر کوٹ میں ہے جو ملک بھر میں فراہم کی جانے والی مرچ کا 85 فیصد پیدا کرتا ہے، یہ منافع بخش فصل سندھ کے دیگر مختلف علاقوں اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی اگائی جاتی ہے تاہم کنری کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ایک زمانے میں کنری میں لگنے والی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہاں لگنے والی فصل ملک کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی حصے دار ہے۔
سرخ مرچ کی فصل اگست سے تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور اکتوبر تک یہ سرخ ہو کر مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ کھیتوں سے چنائی کے بعد اسے منڈی لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی نیلامی اور فروخت ہوتی ہے، یہ سلسلہ جنوری یا فروری تک جاری رہتا ہے۔
کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور اسی تیکھے پن کی وجہ سے اس کی طلب اور قیمت دیگر علاقوں میں اگنے والی مرچ سے زیادہ ہے، تاہم اس کی وہ قیمت نگاہوں سے اوجھل ہے جو اس فصل کے کاشت کاروں اور محنت کشوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
میرپور خاص اور کنری میں سرگرم عمل سماجی کارکن واجد لغاری بتاتے ہیں کہ مرچوں کی چنائی اور اس کی تجارت محنت کشوں کی صحت پر نہایت سخت اثرات مرتب کرتی ہے۔
ان کے مطابق کھیتوں سے مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، یہ محنت کش خواتین کھیتوں میں آتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں جن میں شیر خوار اور بڑی عمر کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
بچوں کی نازک جلد مرچوں کا تیکھا پن برداشت نہیں کر پاتی لہٰذا بچے مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، عموماً ان کی جلد پر زخم بن جاتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
مرچیں توڑنے والی خواتین بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جن میں ہاتھوں اور چہرے پر جلن، خراشیں اور پھر ان کا زخم بن جانا، کھانسی اور گلے کی خراش عام مسائل ہیں۔
شہر کے وسط میں واقع مرچ منڈی
چنائی کے بعد مرچیں نیلامی اور فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نہال دیپ کا کہنا ہے کہ آج سے 4 دہائیاں قبل جب یہ منڈی قائم کی گئی اس وقت کنری شہر میں اتنی آبادی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی جس کے بعد اب یہ منڈی شہر اور آبادی کے وسط میں آچکی ہے۔
واجد لغاری بتاتے ہیں کہ منڈی میں لائے جانے کے بعد جیسے جیسے مرچیں سوکھتی جاتی ہیں ویسے ویسے ان کا تیکھا پن شدید اور نقصانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، پورے شہر کی فضا میں تیکھا پن اور دھانس موجود ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔
ان کے مطابق جن دنوں مرچ کی فصل عروج پر ہو ان دنوں اس کی دھانس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ آس پاس کے دکاندار اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں جبکہ شہریوں کا سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ نہ صرف منڈی کے آس پاس کی آبادیاں بلکہ پورا شہر ہی مجموعی طور پر مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔
واجد لغاری کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے منسلک محنت کشوں کو مختلف سانس کے اور جلدی مسائل عام ہیں، سانس کی نالیوں میں زخم ہو جانا، کھانسی، پھیپھڑوں کی خرابی، دمہ، جلد پر جلن، خراشیں اور زخموں کا بن جانا عام امراض ہیں۔
تمام امراض کے علاج کے لیے ایک اسپیشلسٹ
کنری تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر مبارک علی درس کہتے ہیں کہ مرچ کی چنائی کے سیزن میں شہر بھر میں مختلف امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں پورے شہر کی فضا میں مرچ کی دھانس ہوتی ہے اور خصوصاً منڈی کے قریب رہنے والے افراد نہایت تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق ان دنوں بزرگ، بچے اور ایسے افراد جو پہلے ہی سانس کے مسائل کا شکار ہوں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں سانس کے مسائل، کھانسی اور آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایات ہوں۔ اسی طرح مرچ کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی جسم پر زخموں کی تکلیف کے ساتھ کنری کے واحد سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہی تمام طبی مسائل چھوٹے بچوں کو بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے ان کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق کنری میں صرف ایک ہی چیسٹ اسپیشلسٹ موجود ہے جو ضلعے کی تمام آبادی کے لیے ناکافی ہے، ان کے علاوہ علاقے میں آنکھوں یا جلد کا کوئی اسپیشلسٹ موجود نہیں۔
ایم ایس کا کہنا تھا کہ مرچوں کی دھانس سے متاثرہ مریض جب اسپتال آتے ہیں تو انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ خرابی طبیعت کی شدت سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور مرچوں کا کام کرنے والے دستانے ضرور پہنیں، ’لوگ سن کر اس پر ایک دو دن عمل کرتے ہیں، اس کے بعد تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں‘۔
نئی منڈی جو 14 سال سے زیر تعمیر ہے
کنری کے رہائشی اور مرچ کے کاروبار سے منسلک عظیم میمن بتاتے ہیں کہ سنہ 2007 میں کنری شہر سے باہر نئی مرچ منڈی کی تعمیر کی منظوری دی گئی جس کے لیے فنڈ بھی جاری کیے گئے اور فوری طور پر تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔
لیکن 14 برس گزر چکے ہیں اس منڈی کی تعمیر کا کام تاحال ادھورا ہے، یہ منصوبہ میگا کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔
اس منڈی کی تعمیر کا ابتدائی مجموعی تخمینہ 16 کروڑ روپے تھا جو فوراً جاری کردیے گئے تھے، تاہم اس وقت منڈی کی تعمیر میں نہایت ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ہر کچھ عرصے بعد منڈی کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کے فنڈز جاری کیے جاتے رہے۔
سنہ 2017 میں نیب کراچی کے حکام نے منڈی کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور متعلقہ افسران سے پوچھ گچھ شروع کردی۔
عظیم میمن کا کہنا ہے کہ ان 14 سالوں میں منڈی کی تعمیر کے لیے 60 سے 70 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور تاحال اس کی تعمیر مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس دوران بنائی گئی چند دکانیں ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔
ان کے مطابق مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی سے شہریوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے گی اور شہر میں پھیلے مختلف امراض میں بھی کمی آئے گی۔ لیکن اس کا انحصار نئی منڈی کی تعمیر پر ہے، ’ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ جلد سے جلد اس منڈی کی تعمیر مکمل ہو اور ہم سکون کا سانس لے سکیں‘۔