کراچی: آج اردو ادب کے نامورثائی شاعرڈاکٹر ریحان اعظمی ستاون ویں سالگرہ منا رہے ہیں، وہ 7 جولائی 1958 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔
جدید اردو ادب کی تاریخ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریحان اعظمی کے ذکرکے بغیر نامکمل رہے گی، وہ ایک استاد، صحافی اور قلمکارہیں لیکن بنیادی طور پرآپ کا طرہ امتیازشاعری ہے۔
ریحان اعظمی کراچی کے متوسط طبقے کے علاقے لیاقت آباد المعروف لالوکھیت کی گلیوں میں جوان ہوئے جہاں اس زمانے میں اہلِ علم کی کثیرتعداد آباد تھی۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول لیاقت آباد سے حاصل کی جبکہ ثانوی تعلیم کے لیے سراج الدولہ کالج کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اوروہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا۔
ڈاکٹر ریحان اعظمی نے 1974 میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا اور ایک طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگاروابستہ رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے 4000 سے زائد نغمات سپردِ قلم کیے جن میں ایشیا کا مشہورترین گانا ’ہواہوااے ہوا‘ اور ’خوشبو بن کر مہک رہا ہے سارا پاکستان‘ شام ہیں۔
شاعری کےعنفوانِ شباب میں ان کے اندر ایک انقلابی تبدیلی آئی جس کے بعد انہوں نے نغمہ نگاری سے ربط توڑکرحمد وسلام، نعت، نوحہ، منقبت اورمرثیے سے تعلق قائم کرلیا۔
رثائی ادب میں ان کی 25 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’نوائے منبر‘، غم، ’آیاتِ منقبت‘ اور ’ایک آنسو میں کربلا‘ سمیت دیگر کئی کتب شامل ہیں جبکہ ’ریحانِ کربلا‘ طباعت کے مراحل میں ہے۔
غزل کہے بغیر کسی بھی شاعر کی سوچ اورفکر کے معیارکی بلندی تک رسائی ممکن نہیں، ریحان اعظمی جدید شاعری کے نمائندہ شاعر ہیں ان کے دو غزلیات کے مجموعے ’خواب سے تعبیر تک‘ اور’قلم توڑدیا‘ شائع ہوچکے ہیں۔
ریحان اعظمیٰ کی رسائی ادب میں خدمات کے اعتراف میں ان کو پاکستان اوربھارت ساری دنیا میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔