کراچی: بینکاک سے گرفتار سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے اہم ملزم عبد الرحمٰن عرف بھولا نے فیکٹری میں آگ لگانے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بلدیہ فیکٹری کو آگ اصغر بیگ نے لگائی۔ بھولا کو 19 دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔ بینکاک سے گرفتار کیے گئے کیس کے مرکزی ملزم عبد الرحمٰن عرف بھولا کو ایف آئی اے حکام نے عدالت میں پیش کیا۔
مزید پڑھیں: پرانے ساتھیوں کا بھولا کو پہچاننے سے انکار
ملزم نے عدالت میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹری میں آگ میں نے نہیں بلکہ اصغر بیگ نے لگائی۔
دوسری جانب عدالت نے سانحہ بلدیہ کے تفتیشی افسر راجا جہانگیر پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم کیس میں نااہل افسر کو تعینات کیا گیا۔ ہم نے اس معاملے پر ایس ایس پی سطح کا افسر مقرر کرنے کی سفارش کی تھی جس پر اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سنیئر افسر کی تعیناتی کے لیے متعلقہ ڈی آئی جی کو خط لکھ دیا ہے۔
عدالت نے سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم عبد الرحمٰن عرف بھولا کو 19 دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کو کیس کا تفتیشی افسر تبدیل کرنے کے لیے بھی 19 دسمبر تک مہلت دے دی ہے۔
مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ کے مجرموں کو سرعام جلایا جائے، لواحقین کا مطالبہ
واضح رہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد افراد کو زندہ جلانے کے مرکزی ملزم عبد الرحمٰن عرف بھولا کو 5 دسمبر کو بینکاک کے ہوٹل سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد گزشتہ رات ایف آئی اے حکام اسے وطن واپس لائے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری: کب کیا ہوا
چار سال قبل بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کا شکار بننے والی سوختہ لاشیں اور روز سسک سسک کر مرنے والے ان کے ہزاروں پیارے تا حال انصاف کے منتظر ہیں۔
بلدیہ فیکٹری کیس پولیس کی روایتی بے حسی اور سستی کا شکار رہا۔ تفتیش نے کئی ڈرامائی موڑ لیے۔ ابتدا میں پولیس کے تفتیشی افسران نے واقعہ کو شارٹ سرکٹ کا شاخسانہ قرار دیا۔
ملزم رضوان قریشی کی ڈرامائی انٹری سے کیس نیا رخ اختیار کر گیا۔ ملزم کے سنسنی خیز انکشافات پر از سر نو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنائی گئی۔ ٹیم نے کیس کا دائرہ لندن سے دبئی تک پھیلایا۔ دبئی میں فیکٹری مالکان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
نئی تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ سانحہ بلدیہ حادثہ نہیں، منظم دہشت گردی تھی۔ فیکٹری مالکان سے پچیس کروڑ روپے بھتہ مانگا گیا۔ انکار پر فیکٹر ی کو آگ میں جھونک دیا گیا۔
مہینوں کی کھوج کے بعد جے آئی ٹی نے پہلے سے درج مقدمہ واپس لینے اور حماد صدیقی، رحمٰن عرف بھولا، عمر حسین سمیت 8 ملزمان کو نامزد کرنے کی سفارش کی۔
جے آئی ٹی میں انکشاف ہوا کہ ایک سیاسی جماعت کے سینئر رہنماؤں کے دباؤ پر واقعہ کو شارٹ سرکٹ قرار دیا گیا۔ ضمنی چالان میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کے بعد مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیا گیا۔ عدالت نے فیکٹری مالکان کو کلین چٹ دینے کی رپورٹ مسترد کردی۔
ہائی پروفائل ٹارگٹ کلر یوسف عرف گدھا گاڑی کے انکشافات سے بلدیہ سانحے کا ایک اور کردار بھی سامنے آیا۔ کیس کے ایک اہم ملزم عبد الرحمٰن بھولا کی بینکاک سے گرفتاری پر کیس میں انصاف کی امید پھر سے روشن ہوگئی ہے۔