تازہ ترین

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

پیٹرول یکم مئی سے کتنے روپے سستا ہوگا؟ شہریوں کے لیے بڑا اعلان

اسلام آباد: یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں...

وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات

ریاض: وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد اور...

پاکستان کیلیے آئی ایم ایف کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط منظور

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان...

ہمارے لیے قرضوں کا جال موت کا پھندا بن گیا ہے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے...

روزا پارکس‌ کا تذکرہ جن کے ‘انکار’ نے تعصب کو شکست دی

‘ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے’، یہ قول روزا پارکس (Rosa Parks) سے منسوب ہے اور ہم پر ظلم اور ناانصافی کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔ سیاہ فام امریکیوں کے لیے جدوجہد کا استعارہ بن جانے والی روزا پارکس 2005ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔

سیاہ فام امریکیوں کے شہری حقوق کی سب سے مؤثر تحریک کی بنیاد روزا پارکس کا وہ ‘انکار’ تھا جس نے غیر انسانی اور عدم مساوات پر مبنی قانون کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اس انکار نے امریکہ میں سیاہ رنگت کی بنیاد پر مسلسل تذلیل اور حق تلفی برداشت کرنے والے کم زور انسانوں نیا حوصلہ بخشا اور ایک تحریک نے جنم لیا جس کا اختتام تاریخی فیصلے کا سبب بنا۔ روزا پارکس کو ان کی جرأت پر امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا۔ درجنوں جامعات نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ ان کے امریکہ بھر میں نصب یادگاری مجسمے نہ صرف ان کی عزّت و تکریم کا اظہار ہیں بلکہ ہر مظلوم کو حق اور سچ پر ڈٹ جانے کا پیغام دیتے ہیں۔

یکم دسمبر، 1955ء میں روزا پارکس نے ریاست الاباما کے شہر منٹگمری میں بس کے سفر کے دوران ایک سفید فام امریکی کے لیے اپنی نشست چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ اُس شہری قانون کی خلاف ورزی تھی جس کے تحت بس میں سفید فام اور کالی رنگت والے امریکی شہریوں کی الگ نشستیں مخصوص تھیں۔

روزا پارکس کی عمر اُس وقت 42 برس تھی اور وہ حقوقِ‌ انسانی کی تنظیم کی کارکن تھیں‌۔ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ روزا پارکس کی گرفتاری کی خبر عام ہوئی تو اچانک سیاہ فام تنظیموں اور دوسرے راہ نماؤں نے ان بسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور خاتون کی گرفتاری پر احتجاج بھی شروع کر دیا۔ یہ بائیکاٹ 385 دِنوں تک جاری رہا۔ یہ وہ بسیں تھیں‌ جن میں اکثر سیاہ فام سفر کرتے تھے اور ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا تھا۔ تب، امریکہ کی عدالتَ عظمیٰ کو شہر کے پبلک ٹرانسپورٹ میں اس بدترین تفریق کو ختم کرنے کا حکم دینا پڑا۔ یہ سیاہ فام امریکیوں کی بڑی جیت تھی۔

روزا پارکس نے 92 برس کی عمر میں وفات پائی۔ سنہ 2013 میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی عمارت میں اُن کا قد آور مجسمہ نصب کر کے خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

وہ امریکہ کہ ایک عام سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ روزا پارکس فروری 1913 میں الاباما کے ایک علاقے میں پیدا ہوئیں۔ والدین میں علیحدگی کے بعد روزا پارکس اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال میں رہنے لگیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم مضافات کے اسکول میں ہوئی اور بعد میں انھوں نے متعدد پیشہ ورانہ کورسز بھی کیے، تاہم ان کی تعلیم کا سلسلہ نانی اور بعد میں والدہ کی بیماری کے دوران رک گیا اور وہ ان کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کرتی رہیں۔ تعلیمی سلسلہ جڑا تو اس وقت تک سفید اور سیاہ فام افراد کے لیے ٹرانسپورٹ میں امتیازی بلکہ غیرانسانی قانون نافذ ہوچکا تھا اور کالی رنگت والے بچے پیدل اسکول جانے پر مجبور تھے۔ روزا پارکس اسکول جاتے ہوئے سڑک پر گوری چمڑی والے طلبہ کو بسوں میں سوار بہ سہولت منزل پر پہنچتے ہوئے دیکھ کر کڑھتی رہتی تھیں۔ یہ ان پر منفی اثرات مرتب کرتا تھا اور ان میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنتا تھا۔ یہی وہ دن تھے جب روزا پارکس نے سفید اور سیاہ فام افراد کے مابین تفریق کو بری طرح محسوس کیا۔

1932ء میں روزا پارکس کی شادی ایسے شخص سے ہوئی جو انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ تھا۔ اس کے اگلے برس روزا پارکس نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرلی۔ انھوں نے متعدد معمولی نوکریاں کیں اور پھر گورے اور کالے کی تفریق سے بیزار روزا پارکس بھی انسانی حقوق کی تنظیم کی رکن بن گئیں۔ یہ 1943ء کی بات ہے اور پھر وہ اس تنظیم میں مختلف حیثیت میں کام کرتی ہوئی مقامی سطح پر نمایاں ہوئیں۔ اسی سال پبلک ٹرانسپورٹ کے ایک ڈرائیور نے ‘بدترین مذاق’ کیا تھا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز انھیں سیاہ فام افراد کے لیے مخصوص کی گئی پچھلی نشست پر جانے کی ہدایت کی گئی، کیوں کہ بس میں سفید فام مسافر سوار ہوچکے تھے اور قانون کے مطابق روزا کو اپنی نشست چھوڑنا تھی۔ اب انھیں بس کے اگلے دروازے سے نیچے اترنا تھا اور وہ پچھلے گیٹ سے داخل ہوکر اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ سکتی تھیں۔ اُس روز بارش ہورہی تھی۔ روزا پارکس جیسے ہی نیچے اتریں، ڈرائیور جس کا نام جیمز ایف بلیک تھا، اس نے بس چلا دی۔ روزا پارکس بارش میں بھیگتی رہ گئیں۔ ان کا جگر چھلنی تھا۔ ایسی توہین، ایسی تذلیل اور وہ بھی صرف رنگت اور نسل کی بنیاد پر۔

اس کے چند برس بعد روزا پارکس جس بس میں نسل پرستی پر مبنی قانون کے خلاف ڈٹ گئی تھیں، اتفاق سے اس کا بس ڈرائیور بھی وہی جیمز ایف بلیک تھا جس نے انھیں سڑک پر بھیگنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ روزا پارکس کی اپنے حق میں مزاحمت کے بعد شہر کا کوئی سیاہ فام بس پر سوار نہیں ہوا اور بسوں کا بائیکاٹ نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کی بنیاد بن گیا۔ یہ جدوجہد طویل آئینی جنگ، مظاہروں، مزاحمت، ہنگاموں اور کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد کوئی بھی سیاہ فام اپنی نشست چھوڑنے کا پابند نہیں رہا۔

آج امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں شہری حقوق کی جدوجہد کو نئی سمت اور نئی جہت بخشنے والی روزا پارکس کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کی جرات کی داستان کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی۔

Comments

- Advertisement -