ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ان کی پھٹے جوتوں کے ساتھ اولمپکس تک کا سفر عزم وہمت کی داستان ہے۔
صادق ہوں اگر جذبے تو ملتی ہیں مرادیں۔ اس قول کو درست ثابت کیا پاکستان کی شان جیولن تھروور ارشد ندیم نے، جنہوں نے نامساعد حالات، سہولتوں کی عدم فراہمی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور پیرس اولمپکس میں ایسا جگمگائے کہ سب کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ انہوں نے نہ صرف اولمپک کا 118 سالہ ریکارڈ توڑا بلکہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں انفرادی سطح پر پہلا گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
لیکن ارشد ندیم کو یہ کامیابی طشتری میں رکھ کر نہیں ملی بلکہ اس کے پیچھے سخت محنت اور عزم مستحکم کی ایک طویل داستان ہے۔ ان کا سفر ملتان گیمز میں پھٹے جوتوں سے شروع ہوا جو پیرس میں گولڈ میڈل تک جا پہنچا جب کہ یہ سفر مزید جاری اور کئی کامیابیاں ان کی منتظر ہیں۔
ارشد ندیم نے 2011 میں جب ملتان ڈسٹرکٹ میں ہونے والے گیمز میں اپنا نام بنایا تو ان کے جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ والد جو خود مزدور تھے، بیٹے کو بھی اسی میں جھونکنا چاہتے ہیں لیکن ان کی سوچ بلند پرواز اور آنکھیں بے مثال کامیابی کے خواب دیکھتی تھیں اور وہ اپنے اس خواب کو سچ بنانا چاہتے تھے۔
ارشد ندیم کو کھیلوں کا شوق تھا اور پاکستان کے ہر نوجوان کی طرح انہیں کرکٹ سے لگاؤ تھا۔ اسی لیے پہلے کرکٹ میں جی لگایا لیکن ان کی قسمت میں گیند نہیں بلکہ جیولن تھرو کرنا لکھا تھا اور قسمت کا یہ لکھا پورا ہوا۔
انہوں نے 2015 میں جیولن تھرو میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہیں جیسے جیسے جیولن تھرو میں مہارت حاصل ہوتی گئی، ویسے ویسے نام بنتا گیا۔ ان کا نام شہر سے نکل کر ضلع، ڈویژن، صوبے اور ملک بھر میں مشہور ہوا اور سبز ہلالی پرچم کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے ایشین جونیئر، اسلامک گیمز، کامن ویلتھ گیمز، ٹوکیو اولمپکس میں نام کمایا اور پاکستان کو کئی میڈلز جتوائے۔
ٹوکیو میں میڈل نہ ملا لیکن ہمت اور پذیرائی ملی۔ انہیں یقین ہو چلا کہ عظمت بھی ملے گی۔ کامن ویلتھ گیمز میں 90.18 میٹرز کی تھرو کر کے پاکستان کے لیے پہلا سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
لیکن وہ پاکستان کو اولمپکس میں گولڈ میڈل دلانے کے خواہاں تھے اور تربیت کی بین الاقوامی معیار کی سہولتیں نہ ہونے کے باوجود انہیں ہمت نہ ہاری۔ گلی کوچوں سے ٹریننگ لینے والے ارشد ندیم کی اگلی منزل پیرس تھی۔
جیولن اسٹار نے سٹی آف لائٹس میںٰ تاریخ رقم کر دی۔ دوسری تھرو 92.97 میٹرز تک پھینک کراولمپک گیمز کا 118 سالہ ریکارڈ توڑا اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا جو اولمپک میں 32 سال بعد کوئی میڈل ہے جب کہ وہ پہلے ایسے ایتھلیٹ بنے جنہوں نے ملک کی تاریخ میں پہلا انفرادی گولڈ میڈل حاصل کیا۔