جمعہ, اکتوبر 18, 2024
اشتہار

جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

اشتہار

حیرت انگیز

اگر تاریخِ عالم میں سکندر کا نام ایک غیرمعمولی شخصیت، باتدبیر حکم راں اور بہترین فوجی کمانڈر کے طور پر محفوظ ہے تو فارس کے بادشاہ دارا کا تذکرہ بھی بہادر فوجی اور باصلاحیت حکم راں کی حیثیت سے بہت اہمیت رکھا ہے جس نے سکندرِ اعظم کی فتوحات کا راستہ روکا تھا۔

نوجوان سکندرِ اعظم نے وسیع میدانوں میں بڑے بڑے سورماؤں‌ کو شکست دے کر دنیا پر راج کیا لیکن دارا سوّم بھی 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط وسیع سلطنت رکھتا تھا۔ دارا کی سلطنت کی وسعت اس زمانے کے فن پاروں سے بھی عیاں ہے جن میں اس کے مختلف حصّوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ بحیثیت جنگجو اور حکم راں، مغرب کے نزدیک دارا نے ہمیشہ سخت رویہ اپنایا اور وہ اپنے ایک عزیز کے ہاتھوں مارا گیا۔ 330 قبلِ مسیح میں دارا کی موت کے بعد سلطنتِ فارس کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی تاریخ میں سکندرِ اعظم کی عالی شان سلطنت وجود میں آئی۔ ان حکم رانوں اور فوجی کمانڈروں کا ذکر تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں کا ادب بھی ان کے نام اور کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ نام دلیری، شجاعت، خوش نصیبی کا استعارہ بھی بنے اور ان سے جڑے واقعات نے شاعری میں صنعتِ تلمیح کی صورت میں جگہ پائی۔ اس میں جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری پر کئی نثر پارے اور اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دونوں عجیب و غریب یا اس زمانے کے اعتبار سے کرشماتی چیزیں ہیں جس میں کچھ حقیقت ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے تاریخی کتب کھنگالی جاسکتی ہیں۔ لیکن اہلِ فن و قلم ان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:

سکندر اور ایران کے بادشاہ دارا کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن سکندر دارا کی تدبیروں کی وجہ سے شکست کھا جاتا تھا۔ دارا جامِ جہاں نما کی مدد سے سکندر کی تمام نقل و حرکت اور تیاریوں سے آگاہ ہو جاتا اور سکندر کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ آخر کار اس نے حکومت کے مدبروں اور سائنس دانوں کی مدد سے شہر اسکندریہ کے ساحل پرایک آئینہ بنانے میں کام یابی حاصل کر لی، جس سے وہ دشمن کی نقل و حرکت اور سربستہ رازوں سے آگاہی حاصل کرسکے۔ یہ آئینہ سکندر نےایک اونچے مینار پر نصب کرایا تھا، اس آئینے کی مدد سے دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ سو میل کی مسافت سے ہوجاتا تھا۔ اس تلمیح کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔

- Advertisement -

سکندر کیوں نہ جاوے بحرِ حیرت میں کہ مشتاقاں
تمہارے مکھ اگے درپن کوں درپن کر نہیں گنتے
شاعر: ولی دکنی

خاکِ آئینہ سے ہے نامِ سکندر روشن
روشنی دیکھتا گر دل کی صفائی کرتا
شاعر: ذوق

آئینۂ سکندری اردو ادب کا خاص موضوع رہا ہے اور عوام میں اس کی شہرت کو دیکھتے ہوئے برطانوی دور میں اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ یہ فارسی زبان میں نکلنے والا ہفت روزہ اخبار تھا۔ اسے مولوی سراج الدّین نے آئینۂ سکندر کے نام سے فروری 1831ء میں کولکتہ سے جاری کیا۔ یہ ہفت روزہ 14 صفحات پر مشتمل تھا اور ہر دو شنبہ کو نکلتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس اخبار کو عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا تعاون حاصل تھا۔ ان کا فارسی کلام بھی آئینۂ سکندر میں شائع ہوتا تھا۔ اس ہفت روزہ کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خبر کی سرخی کے نیچے ایک شعر بھی لکھا جاتا تھا۔ اسی طرح جامِ جہاں نما، برصغیر پاک و ہند میں پہلا اردو اخبار مشہور ہے جو 1822ء میں کلکتے سے ہری ہردت نے جاری کیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کردیا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں