ماسکو : آج کل بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑچکی ہے کہ روس نے امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے بعد افغانستان کی صورت حال اور نگرانی کے لئے اپنے فوجی اڈے جو تاجکستان اورکرغستان میں موجود ہے استعمال کرنے کی پیشکش کی ہے۔
یہ خبر ایک روسی اخبار نے یہ الزام لگاتے ہوئے شائع کی ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والی ملاقات کے دوران افغانستان میں تنازعہ سے متعلق معلومات کے تبادلے کے امکان اور جنگ زدہ ملک کی صورتحال کی نگرانی کے لئے روسی فوجی اڈوں کے استعمال کی پیش کش کی تھی۔
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو میں صدر پوتن کی جانب سے امریکی صدر کو تاجکستان اور کرغزستان میں روسی فوجی اڈوں کو استعمال کرنے کی تجویز بھی شامل تھی. اس خبر کو عالمی میڈیا نے اپنی سرخیوں کی زینت بنایا، تاہم دوسری طرف اس معاملے پر روس کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
اخبار کے مطابق اس روسی پیشکش کا امریکہ نے ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس بات کی تصدیق کی کہ جون کے اجلاس کے ایجنڈے میں افغانستان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی لیکن اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ آیا روس کے وسطی ایشیائی اڈوں کو امریکا کو دینے کی پیش کش کی گئی یا نہیں؟
دوسری جانب سے اس تناظر میں روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا کہ جب صدر پوتن نے گذشتہ ماہ جنیوا میں صدر بائیڈن سے ملاقات کی تھی تب ماسکو نے یہ پیغام اس وقت واشنگٹن کو پہنچایا تھا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لئے امریکی مستقل فوجی موجودگی کی بحالی قابل قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا پر یہ واضح کر دیا تھا کہ روس کے قریب یا اس کے اتحادی ممالک میں امریکی فوجی موجودگی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم نے امریکیوں کو براہ راست اور دو ٹوک انداز میں بتایا ہے کہ اس خطے میں بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں، اس کے علاوہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بھی ہمارے خیالات میں بہت سی چیزیں بدل جائیں گی۔ اس لیے یہ گمان کرنا احمقانہ سوچ ہوگی کہ امریکی فوجی موجودگی کو ہم وسطی اشیا کے ممالک میں برداشت کریں گے۔