روس یوکرین جنگ سے دنیا بھر میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے صرف ایشیا اور افریقہ کے غریب اور ترقی پذیر ممالک ہی نہیں یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کے عوام بھی اس پریشانی سے دوچار ہیں۔
دنیا گزشتہ دو سال تک کورونا جیسی عالمی وبا سے نبرد آزما ہوکر لاک ڈاؤن کے باعث بدترین معاشی بحران کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ معاشی استحکام کی طرف لوٹ رہی تھی کہ رواں سال کے آغاز میں روس یوکرین جنگ نے اس معاشی بحران کو دوچند کردیا ہے، دنیا بھر میں بڑھتے مہنگائی کے رجحان نے اس کرہ ارض پر غذائی قلت کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔
روس یوکرین جنگ کے منفی اثرات سے عالمی معیشت بری طرح متزلزل ہوگئی ہے جس کا اثر صرف ایشیا یا افریقہ کے غریب ممالک پر ہی نہیں پڑ رہا ہے جس کی دنیا کے سامنے مثال سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں سامنے آچکی ہے بلکہ یورپی ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد وہاں کے عوام کی مشکلات بڑھ چکی ہیں اور یورپی شہریوں نے فالتو اخرجات سے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا ہے جس کے بعد اب وہ صرف ضروری اشیا کی خریداری پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔
افراطِ زر میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب اشیائے خور ونوش کی منڈیوں اور تیل کے ساتھ ساتھ کار سازی اور تعمیرات کے شعبوں میں بھی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے اور اب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں برس 27 رکنی یورپی یونین کو مجموعی طور پر 7 فیصد سے زائد افراطِ زر کا سامنا ہو گا۔
مختلف یورپی ممالک میں مچھیروں اور کسانوں نے مجموعی مہنگائی کے تناظر میں اپنی پیدوار میں اضافہ کر دیا ہے تو دوسری جانب پٹرول کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے مال بردار ریل گاڑیوں اور سامان بردار ٹرکوں کی نقل وحرکت میں بھی کمی آئی ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ استعمال کے لیے روٹی کی مختلف اقسام بھی مہنگی ہو چکی ہیں اور خاص طور پر پولینڈ سے بیلجیم تک اشیائے خور ونوش کی دکانوں پر بریڈ مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب، پولینڈ میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 150 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کے بعد بعض یورپی حکومتوں نے ٹیکسوں کی مد میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی امداد کے اشارے بھی دیے ہیں۔