اشتہار

صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

اشتہار

حیرت انگیز

’سسی‘ پاکستانی فلمی صنعت کی کام یاب ترین اور یادگار فلم تھی جس پر 1954ء میں ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب فلم ساز ایک لاکھ روپے سے کم رقم فلم پر لگاتے تھے۔ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جو صبیحہ خانم کے کیریئر کی بھی اہم اور یادگار فلم بن گئی۔

پاکستانی فلموں کی ’خاتونِ اوّل‘ کے لقب سے یاد کی جانے والی صبیحہ خانم کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صبیحہ خانم نے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

- Advertisement -

صبیحہ خانم کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں اپنے وقت منجھے ہوئے فلم سازوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں داؤد چاند، ایم اے خان، سلطان کھوسٹ اور دیگر ایسے نام شامل ہیں جو برطانیہ سے فلم سازی کی تکنیک سیکھ کر آئے تھے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے صبیحہ خانم کی اداکاری میں بھی وقت کے ساتھ نکھار آیا۔ مذکورہ فلم میں جہاں صبیحہ خانم کی اپنی معصومانہ اداؤں کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر تھیں، وہیں مکالموں کی بے ساختہ ادائیگی نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ کہتے ہیں فلم سسی نے 40 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ ملک بھر میں صبیحہ خانم کی اداکاری کی دھوم مچ گئی۔

اس سے قبل صبیحہ خانم نے 1950 میں فلم بیلی میں کام کیا تھا جو بری طرح فلاپ ہوئی اور اس کے بعد بھی چند فلموں میں صبیحہ خانم نے ناکامی سمیٹی۔ مگر وہ اس لیے خوش قسمت تھیں‌ کہ وہ سلطان کھوسٹ اور نفیس خلیلی کی نظر میں‌ آگئی تھیں جنھوں نے یہ جان لیا تھاکہ وہ باصلاحیت ہیں۔ انھوں نے صبیحہ خانم کو اداکاری کی تربیت دی اور پھر نفیس خلیلی نے انھیں ایک ڈرامے ’بت شکن‘ میں کردار سونپ دیا۔

صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ اس ڈرامے میں انھیں صبیحہ خانم کے نام سے متعارف کروایا گیا اور یہی فلمی دنیا میں ان کی پہچان بنا۔ ’بت شکن‘ کے بعد صبیحہ خانم کو ایک فلم میں‌ سائڈ ہیروئن کا رول ملا اور پھر یہ سلسلہ کئی کام یاب اور سپر ہٹ فلموں تک دراز ہوگیا۔ فلمی اعداد و شمار کے مطابق صبیحہ نے مجموعی طور پر 202 فلموں میں کام کیا۔ صبیحہ خانم نے اپنی شان دار کارکردگی پر پانچ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سات لاکھ، شکوہ، دیور بھابی میں بہترین اداکارہ، سنگ دل میں بہترین معاون اداکارہ اور اک گناہ اور سہی میں خصوصی اداکاری کے زمرے میں دیے گئے تھے۔

صبیحہ خانم کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا سنہ پیدائش 1935ء ہے، وہ پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں، والد کا نام محمد علی اور والدہ کا اقبال بیگم تھا جو اسٹیج اور فلم کی اداکارہ تھیں۔ کم عمری میں صبیحہ خانم اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہوگئیں۔ صبیحہ پندرہ سال کی تھیں جب والد انھیں فلموں میں کام دلوانے کے لیے کوشش کرنے لگے۔ فلم نگری میں اپنی بیٹی کے لیے ان کی یہ بھاگ دوڑ کام یاب رہی اور صبیحہ انڈسٹری کی مقبول ہیروئن بنیں۔ فلم بیلی سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی صبیحہ خانم نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے کیریئر کا عروج دیکھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بننے والی ہر دس فلموں میں‌ سے سات فلموں میں صبیحہ ہی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آتی تھیں۔ صبیحہ خانم کی اداکاری کی سب سے اچھی بات ان کی بے ساختگی اور فطری پن تھا۔

اداکارہ کی محبّت اور شادی کی بات کریں‌ تو اس میں‌ ان کے شریکِ سفر سنتوش کمار کے علاوہ درپن کا نام بھی آئے گا۔ سنتوش کمار اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو تھے جن کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور ان سے اداکارہ کی طوفانی محبّت کے قصّے فلمی صحافیوں کے توسط سے ان دونوں کے مداحوں تک پہنچے۔ ایک روز سنتوش کمار کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ صبیحہ خانم سے نکاح کرچکے ہیں۔ یہ سنتوش کمار کی دوسری شادی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل صبیحہ خانم اور درپن کے درمیان رومان چل رہا تھا جو ستنوش کمار کے بھائی تھے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنے بھائی درپن کو اداکارہ صبیحہ خانم سے شادی نہ کرنے پر قائل کرنے والے سنتوش کمار بعد میں صبیحہ خانم کی محبّت میں گرفتار ہوگئے اور ان سے شادی بھی کر لی۔ کہتے ہیں‌ کہ درپن کو سنتوش کمار نے یہ کہہ کر فلمی دنیا کی ایک لڑکی سے شادی نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ایک شریف اور سنجیدہ گھرانے کے فرد ہیں جب کہ صبیحہ فلمی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال، صبیحہ اور سنتوش حقیقی زندگی میں کام یاب رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ صبیحہ خانم ایک باوقار اور شائستہ خاتون تھیں جو 1958ء میں‌ سنتوش جیسے کام یاب فلمی ہیرو سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس جوڑے کے ہاں تین بچّوں کی پیدائش ہوئی۔

11 جون 1982ء کو سنتوش کمار انتقال کرگئے تھے جس کے بعد صبیحہ خانم بھی فلمی دنیا سے دور ہوگئی تھیں، بعد میں وہ امریکا چلی گئیں جہاں‌ ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

فلموں کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر اداکاری کرتی نظر آئیں۔ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ’احساس‘ اور ‘دشت’ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، اور صبیحہ خانم کے گائے ہوئے دو ملّی نغمے ’جُگ جُگ جیوے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ بھی مقبول ہیں۔

فلمی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی صبیحہ خانم 82 سال کی تھیں اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار تھیں۔ لیکن اس عمر میں بھی خاصی متحرک رہیں۔ وہ زندگی کے آخری سال تک امریکا میں مختلف تقاریب میں شریک ہوتی رہیں اور تہواروں پر مسلم کمیونٹی کی جانب سے دعوت قبول کرتی تھیں۔ وہ 1999 میں امریکا، ورجینیا منتقل ہوئی تھیں۔ صبیحہ خانم 13 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے اداکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔ صبیحہ خانم کی تدفین امریکا ہی میں‌ کی گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں