تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

صادق ہدایت: ممتاز ایرانی ادیب کا تذکرہ جس نے خود کشی کرلی تھی

ایران میں سیاسی تبدیلیوں کے اثرات ادب پر بھی پڑے اور بادشاہت کا زمانہ رہا ہو یا اس کے بعد کی حکومت اور پھر انقلاب کا دور ہو، آزادیِ اظہار کے لیے ماحول سازگار نہیں رہا۔ فارسی ادب اور افسانہ بھی ان ادوار میں متاثر ہوتا رہا، لیکن صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاسکتا ہے۔

وہ مصنّف و مترجم ہی نہیں‌ ایک ایسے دانش وَر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے جس نے ایرانی ادب میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ عظمت و مرتبہ اس کے افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ہے۔

صادق ہدایت کی زبان بظاہر مزید سادہ اور واضح تھی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتا کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

4 اپریل 1951ء کو ایران کے معروف تخلیق کار نے فرانس میں قیام کے دوران خود بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول ہوا۔ اسے فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوا اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ اس نے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے لیے فرانس چلا گیا جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کا اسے موقع ملا۔ بعد میں ایران لوٹ آیا، مگر یہاں کے حالات نے مجبور کردیا کہ وہ ہندوستان منتقل ہوجائے۔ اس زمانے میں وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکا تھا اور بمبئی میں رہتے ہوئے صادق نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ اس کی کہانیوں کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی اور بعد میں صادق ہدایت نے ڈرامہ نویسی اور سفرنامے بھی رقم کیے۔

ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے جو جدید ایرانی ادب میں منفرد اور ممتاز تخلیقات ہیں۔ ہدایت نے فارسی افسانے کو ایک نیا شعور اور مزاج دیتے ہوئے عوام کی ترجمانی کی اور ان کے لیے انہی کی زبان کو اپنایا۔

Comments

- Advertisement -