فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کا امتیاز یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے صدیوں سے خوشی اور غم کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس فن کو ہر دور میں شاہانِ وقت کی سرپرسی بھی حاصل رہی اور کسی نہ کسی شکل میں ہر خاص و عام موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں کلاسیکی موسیقی نے فلموں میں بھی جگہ پائی اور اس فن کے ماہر اور اس کی باریکیاں سمجھنے والے بھی موجود تھے جن میں ایک نام سعید ملک کا بھی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں معیاری فلمیں بنا کرتی تھیں اور کلاسیکی موسیقی کا رجحان تھا، لیکن پھر وقت بدل گیا اور نئے آلاتِ موسیقی کے ساتھ جدید طرزِ گائیکی نے جہاں کئی ساز اور اصنافِ موسیقی کو ماضی کا حصّہ بنا دیا، وہیں اس فن کے ماہر بھی اپنی عمر پوری کرتے چلے گئے اور آج ان کی تصانیف بطور یادگار محفوظ رہ گئی ہیں۔ سعید ملک بھی اس دنیا میں نہیں رہے اور آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک مشہور ماہرِ موسیقی اور ادیب بھی تھے۔ 30 دسمبر 2007ء کو سعید ملک دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے متعدد تصنیفات یادگار چھوڑ گئے۔ سعید ملک لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ماہر موسیقی سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں۔ وہ ادارے کی گورننگ کونسل کے رکن رہے۔ انھوں نے 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی پر مضامین اور کالم لکھے۔ سعید ملک نے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد اس فن سے متعلق مضامین لکھے جو اس فن کی باریکیاں اور موسیقی سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے ایک خزانہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ تحریریں اور کالم پاکستانی موسیقی کی تاریخ اور ایک مستند حوالہ ہیں۔
سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔