جمعہ, دسمبر 13, 2024
اشتہار

تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

عتیق صدیقی 1979ء میں لکھنؤ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے گئے تھے اور اس وقت وہ نوجوان تھے۔ عتیق صدیقی کا سفرنامہ، بعنوان سفرِ گزشت دراصل ایک عام آدمی کا سفرنامہ ہے جو بسوں ریلوں رکشوں اور پیدل اپنے رشتے داروں سے ملنے ملتان سے لکھنؤ، ملیح آباد وغیرہ گئے۔1979 میں انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔

عتیق صدیقی لکھنؤ جانے کے لیے مسافروں سے بھری ایک ٹرین میں بیٹھے تو اس میں ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کر رہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آب دیدہ ہو گئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جا رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا۔ یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔ تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہو گیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھرانے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہِ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہو رہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونا لگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دل چسپی لینا شروع کر دی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں:

’’آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں‘‘۔۔ کسی نے پوچھا۔

- Advertisement -

’’ہاں‘‘۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا

’’کیا حال ہیں پاکستان کے؟‘‘ ایک لہکتی آواز آئی۔

’’بہت اچھے۔ کرم ہے سوہنے رب کا۔‘‘

’’سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں۔‘‘ ایک نئی آواز ابھری۔

’’مہنگائی! مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے۔‘‘

’’مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔ ‘‘ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔ ’’ لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے۔‘‘

خاتون بولیں،’’ تو اور کیا۔ مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔ ‘‘ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔ ’’ آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیں چھوڑ دیے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔‘‘

’’دس روپے کلو آلو۔‘‘ کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

’’واہ بھئی واہ پاکستان۔‘‘ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔

خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں،’’ وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آ جانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔‘‘

ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں