منگل, اپریل 1, 2025
اشتہار

صہبا لکھنوی:‌ معروف شاعر اور رسالہ افکار کے مدیر

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کا رسالہ افکار وہ ماہ نامہ تھا جس کا آغاز انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل بھوپال سے کیا تھا پاکستان بننے کے بعد صہبا صاحب ہجرت کرکے کراچی آئے تو یہاں‌ 1951ء میں دوبارہ افکار کی اشاعت شروع کی اور اردو ادب کی خدمت میں مصروف رہے۔

شاعر و ادیب صہبا لکھنوی کا آبائی شہر لکھنؤ تھا مگر ان کی پیدائش بھوپال میں ہوئی اور وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد صہبا لکھنوی نے لکھنؤ اور بعد میں بمبئی کے تعلیمی اداروں سے مزید تعلیم مکمل کی۔ وہ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہوئے تھے۔ صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔ صہبا لکھنوی 30 مارچ 2002ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

علم و ادب کا شوق رکھنے والے صہبا صاحب نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا کیا اور چند سال بعد جب کراچی ہجرت کی تو یہ سلسلہ یہاں‌ بھی جاری رکھا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی تادمِ آخر رہی اور یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع ہوتا رہا۔ یہ ترقی پسند اہلِ قلم کا ایک اہم رسالہ تھا۔ اس میں جہاں ادبی تخلیقات شائع ہوتی تھیں وہیں ملکی اور غیر ملکی تراجم بھی پڑھنے کو ملتے تھے۔ صہبا صاحب کی ادارت میں افکار کا خصوصی کارنامہ خود نوشت سوانح عمریوں کی اشاعت ہے۔ اس کے خاص نمبروں میں برطانیہ میں اردو نمبر، جوش نمبر، فیض نمبر، امیر خسرو نمبر، ندیم نمبر، غالب نمبر، آزادی نمبر، مجاز نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

صہبا لکھنوی نے کراچی اور ملک بھر میں‌ بطور شاعر پہچان بنائی اور مشاعروں‌ میں‌ انھیں‌ بہت شوق سے سنا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام شایع کروائے۔ صہبا صاحب ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ ان کی تحریریں اور مضامین افکار کی بھی زینت بنے اور نثر پر مشتمل ان کی کتابیں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو کے عنوان سے بھی شایع ہوئیں۔

صہبا لکھنوی کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں