ہفتہ, جولائی 27, 2024
اشتہار

فن یا آرٹ اور طبقاتی سطح پر انقلاب

اشتہار

حیرت انگیز

آج میں اس گفتگو کا آغاز اس مسئلے سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ فن یا آرٹ کی (اردو ادب جس کا ایک جزو ہے) ہماری زندگی میں ضرورت کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پہلا فن کار غالباً وہ انسان تھا یا انسانوں کا وہ گروہ تھا جس نے سب سے پہلے معمولی کھردرے پتھر کو اوزار کی شکل میں ڈھالا، ایک حربہ جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرنے کے لیے جانوروں کا شکار کرسکے۔ اور جب انسانوں نے ایک طرح کے بہت سے اوزار بنا لیے ہوں گے، تب ہی اس اوزار کو بہتر طور سے سمجھنے، پہچاننے اور اس کے استعمال پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں پتھر کے کلہاڑے کا مجرد تصور بھی پیدا ہوا ہوگا۔ اور وہ لفظ بااسم وجود میں آیا ہوگا جس سے پتھر کے کلہاڑے کو عام طور سے پہچانا جاسکے۔ اس طرح الفاظ انسانی عمل اور اس عمل کے مادی آثار کی تشبیہ بھی ہیں اور اپنے مفہوم کے وسیلے سے دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔ لفظ کی قوت کا اندازہ کیجیے، جس کے اختراع سے تاریکی میں جیسے روشنی ہو جاتی ہے، انسان خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرتا ہے، قدرت کی اندھی طاقتوں اور اپنے مشکل ماحول پر قابو پانے کی زیادہ صلاحیت اس میں پیدا ہوتی ہے۔

ایک طرف قدرت کی بے پناہ اندھی طاقتوں، گرمی، سردی، طوفان، بارش اور سیلاب، تاریکی، وحشی درندے اور زہریلے سانپ، وہ طاقتیں اور چیزیں جن کے قوانین ابھی تک انسان نے سمجھے نہیں تھے اور جس ناسمجھی کے سبب سے انسان کو اپنی سخت بے بسی کا احساس ہوتا تھا، اور دوسری طرف انسان کا عمل، اس کے دو ہاتھوں کی طاقت اس کی اوزار بنانے کی اور رفتہ رفتہ ذہن اور زبان، تصور اورخیال کے ذریعہ چیزوں، حادثات، انسان اور قدرت اور انسان اور انسان کے مابین رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور پھر سمجھانے کی صلاحیت، لاچاری اور بے بسی اور صلاحیت، بس، اور ابھرتے ہوئے شعور کے درمیان سخت نفسیاتی تناؤ اور تشنج پیدا کرتے ہوں گے، ایسا ذہنی اور روحانی ہیجان پیدا کرتے ہوں گے جو انسان کو اس مخمصے سے نجات دلانے کے لیے نئی راہوں اور نئے طریقوں کی دریافت پر اکساتا ہوگا۔

- Advertisement -

لفظوں کا جادو: ایسے ماحول اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیت میں انسان نے لفظوں کی طلسمی کیفیت محسوس کی۔ لفظ جو شعور اور معنی، تخیل اور فکر کا صوتی اظہار کرتے تھے، اسم اعظم جس کے دہرانے سے اپنے ماحول اور حالات زندگی اور جہد حیات پر قدرت حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی، ذہنی اور روحانی طور پر وہ اپنے کو زیادہ مضبوط اور طاقت ور بنا سکتا تھا۔ پھر قدرت کے مظاہر، موت اور زندگی، روشنی اور آگ، جنس کی کشش، ان سب سے پیدا ہونے والا تحیر، انسان کی اجتماعی زندگی سے ان کا تعلق، تمام ان چیزوں کو اور ان کے قوانین اور اصل کو سمجھنے کی کوشش، زندگی کو بہتر، زیادہ کامیاب اور بار آور بنایا جا سکے۔ اسی کاوش اور کوشش، اور اس کے تجربے، شعور اور خیال کے اتحاد سے انسانی گروہوں کے ابتدائی مذہبی عقائد، دیوی دیوتا، جادو اور انھیں کے ساتھ ساتھ اجتماعی ناچ اور گیت (متوازن عمل اور الفاظ کے صوتی اور تخئیل اثر کا امتزاج) نیز غاروں اور گپھاؤں کی قدیم ترین تصویر کشی، یعنی فنون لطیفہ وجود میں آئے۔

لیکن قدیم اشتراکی معاشرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اجتماعی عمل، اجتماعی زندگی اور فن کی وحدت بھی باقی نہیں رہی۔ طبقاتی معاشرت میں، جہاں ایک طرف نئے وسائل اور ذرائع پیداوار کی دریافت کی وجہ سے، انسان کے مادی وسائل میں زبردست اضافہ ہوا، تہذیب اور مدنیت وجود میں آئے، آبادی میں اضافہ کے لیے وسائل فراہم ہوسکے۔ اسی کے ساتھ مالک اور غلام، اہل دول اور مفلس، محنت کش طبقوں کا وجود، اپنے تمام تضادات کے ساتھ بھی ظاہر ہوا۔ حکمراں، مالک اور استحصال کرنے والے طبقوں کے فنون اپنی خاص خصوصیت رکھنے لگے، اور ان طبقوں کا فن جن کا استحصال ہوتا تھا، جن کے دست و بازو کی محنت سے معاشرت کی تمام وہ پیداوار اور زائد پیداوار وجود میں آتی تھی، جس پر تہذیب و تمدن کی بنیاد اور چمک دمک تھی، ان کے فنون مثلاً لوک گیت، ناچ، مروجہ مذہبی عقائد کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک طرح کا فلسفیانہ انحراف، ان کی دست کاری ان کا بھی وجود رہا اور ان کا ارتقا ہوتا تھا۔

شاعر ادیب ، فن کار اس طبقاتی سماج سے باہر نہیں تھا۔ دربار اور استحصال کرنے والے طبقوں سے وابستگی اسے کبھی ایک طرف کو کھینچتی تھی، کبھی وہ عوامی محنت کش طبقوں سے وابستگی محسوس کرتا تھا (جن کا بیشتر وہ ایک فرد ہوتا تھا) کبھی وہ اس گم شدہ جنت، کھوئی ہوئی اجتماعیت کے خواب دیکھتا تھا، جب سب انسان مفلس سہی، لیکن برابر تھے، اور کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ مصائب اور مظالم کا یہ لامتناہی سلسلہ شاید موت کے بعد، کسی دوسری زندگی میں ختم ہوجائے گا اور دنیا کے جہنم سے نکل کر اسے ایسی جنت میں پناہ ملے گی، جہاں ظلم، جھوٹ غرور اور نخوت، نفرت، حسد، جنگ اور خونریزی کا نام و نشان نہ ہوگا، اور انسان امن، محبت، عیش و عشرت کے ماحول میں ابدی زندگی گزار سکیں گے۔

سماج کی طبقاتی کش مکش: سرمایہ داری کے جدید نظام میں، جو انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد رفتہ رفتہ امپریالزم کی شکل میں ساری دنیا پر حاوی ہوگیا، اگر ایک طرف دنیا کو انواع اقسام کی مادی ضرورتوں کو پوری کرنے والی اشیا سے بھر دیا، اور جس کی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی اور تیز رفتار ترقی ہوئی، اور جس کے سبب سے بڑی مشینی صنعتوں میں اجتماعی طور سے کام کرنے والا، نیا صنعتی محنت کشوں کا طبقہ وجود میں آیا، جس کا اس کے پہلے کے جاگیری یا تاجر سرمایہ دار معیشت میں وجود نہیں تھا، تو دوسری طرف سرمایہ داری نے سماج کی طبقاتی کش مکش، محکوم اور حاکم استعماری ملکوں کی کش مکش کو بہت زیادہ تیز کر دیا، اور ایسے معاشرتی حالات اور کیفیتیں پیدا کیں جن میں بحیثیت فرد کے انسان کی بے گانگی (Alienation) کا احساس شدید اور جاں گداز بن گیا۔ یہ کیفیت بنیادی طور پر اس لیے پیدا ہوتی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش مزدور اور اس کے عمل اور سلسلہ عمل میں بیگانگی ہوتی ہے۔ مارکس نے اس کیفیت کی تشریح یوں کی ہے:

کام، مزدور سے علاحدہ ہوتا ہے، یعنی وہ اس کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا، نتیجہ کے طور پر وہ کام کرکے یہ نہیں محسوس کرتا کہ اپنی تکمیل کر رہا ہے، بلکہ وہ اسے ایک قربانی سمجھتا ہے، اسے اپنی لاچاری کا نہ کہ خوش حالی کا احساس ہوتا ہے، اس کے ذریعہ سے اس کا جسمانی اور ذہنی فروغ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جسمانی طور سے تھکاوٹ اور ذہنی طور سے گراوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اپنے فرصت کےاوقات میں مزدور اطمینان محسوس کرتا ہے، کام کے اوقات میں اسے اپنی بے نوائی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا کام اس کی مرضی کا نہیں، وہ اسے کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے، کام خود اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی دوسری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ کام کی یہ بے گانہ خصوصیت اس بات سے صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جب کوئی جسمانی یا دوسری مجبوری نہیں ہوتی تب وہ طاعون کی طرح اس سے گریز کرتا ہے۔ اور آخر میں کام کی بے گانہ خصوصیت اس بات سے بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کام خود اس کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور کے لیے ہے، یعنی کام کرتے وقت وہ اپنا مالک نہیں ہوتا، کسی دوسرے شخص کا محکوم ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مذہب میں، انسانی تخیل کے عمل، یعنی انسانی دماغ اور ذہن کے عمل کا آزادانہ ردعمل ہوتا ہے، اور یہ دیوتاؤں اور شیطانوں کا ایک فرد بے گانہ عمل معلوم ہوتا ہے، اسی طرح مزدور کا عمل اس کا اپنا عمل نہیں ہوتا، اس کے برخلاف کسی دوسرے کا عمل معلوم ہوتا ہے اس کی اپنی بے ساختگی کا اتلاف ہوتا ہے۔

دوسری جگہ بے گانگی کے متعلق مارکس نے کہا ہے: ’’مزدور، شے (جسے وہ بناتا ہے) میں اپنی جان لگا دیتا ہے، اس طرح اس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس شے کی ملکیت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ جتنا زیادہ عمل کرتا ہے، اتنا ہی کم اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے عمل سے بنی ہوئی شے میں جتنا زیادہ اس کا عمل ہوتا ہے، وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ شے جتنی بڑی ہوگی اتنا ہی وہ خود کم ہوگا۔ اس کی بنائی ہوئی شے سے مزدور کی یہ بے گانگی، نہ صرف اس کے عمل کو ایک شے بناتی ہے، یہ شے، اس سے علاحدہ اپنی ایک مطلق ہستی رکھنے لگتی ہے۔ اس کا وجود اس کی ہستی سے باہر ہوتا ہے، اس سے بے گانہ ہوتا، اور یہ ایک خود مختار قوت بن کر اس کی مخالفت میں سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اپنی جان جو اس نے اس شے میں لگائی ہے۔ اب ایک بے گانہ اور مخالف قوت بن کر اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔‘‘

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی: اس نفسیاتی بے گانگی کے ساتھ ساتھ جدید عہد کی بعض دوسری خصوصیتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کی غیر معمولی اور تیز رفتار ترقی کا زمانہ ہے۔ جن کی مدد سے اور جن کو استعمال میں لاکر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں نے، افلاس، بیماریوں اور بہت سی دوسری محرومیوں سے، جو قبل کے زمانوں میں انسانوں کی قسمت تھی، نجات حاصل کرلی ہے۔ اور اس کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ ساری نوع انسان کو تکلیف دہ مشقت، افلاس، بیماری، ناخواندگی، پس ماندگی سے چھٹکارا دلا کر مادی خوش حالی فراہم کی جاسکے۔ ترقی کی اس تیز رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممالک متحدہ امریکا کے ایک سائنسی ادارے کےصدر گل برٹ وڈمین نے کہا ہے؛

’’۱۹۵۰-۵۶ء کے درمیان سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں علم کی مقدار دگنی ہوگئی، اور غالباً اس کے بعد کی مدت میں پھر دگنی ہوگئی۔ اس وقت جن اشیاء کی پیداوار ہو رہی ہے، ان میں سے پچاسی فیصدی ایسی ہیں جو ۱۹۵۶ء میں تجرباتی مرحلے میں بھی نہیں تھیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے سائنس داں اور انجینئر زندہ ہیں، وہ پوری انسانی تاریخ کے نوے فیصد ہیں۔‘‘

یہ بات گزشتہ سال کہی گئی تھی (۱۹۶۷) اور میں نہیں کہہ سکتا کہ مسٹروڈمین کا یہ تخمینہ صحیح ہے یا نہیں، پھر بھی اگر اس تخمینے میں کسی قدر مبالغہ سےبھی کام لیا گیا ہے، فی الجملہ ایسے عہد کی غیرمعمولی تیز رفتار ترقی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جب انسان کے قبضے میں ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت آگئی ہے اور اس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے، اور جب آٹومیشن، الکٹرونک مشینوں اور سائبرٹیکنکس کا استعمال صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیلتا جارہا ہے، اور ان کے ذریعہ سے گنتی کے افراد، اتنا کام کرسکتے ہیں جو پہلے سیکڑوں ہزاروں آدمی کرتے تھے، اور جب انسان ارضی بندش کو توڑ کر خلا اور بیرونی خلا میں پرواز کرنے لگا ہے، جب چاند اور زہرہ پر اس نے اپنی نشانیاں اتار دی ہیں۔

یقینی یہ تبدیلیاں اتنی بڑی اور بنیادی ہیں کہ ان سے پوری نوع انسانی، معیشت، معاشرت اور اس کے سبب سے انسانوں کی نفسیات، ان کے اجتماعی اور انفرادی تعلقات، فن اور آرٹ اور ادب پر گہرا اثر پڑے گا، اور اس وقت بھی پڑ رہا ہے، لیکن قبل اس کے کہ ہم اس کا ذکر کریں، اس تصویر کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ: ٹھیک ایسے زمانے میں جب انسان کے علم اور اس کی عملی صلاحیت نے اتنی زبردست ترقی کی ہے کہ اس دنیا کو جنت بنانے کی حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں، ٹھیک اسی زمانے میں اور اس تابناک امکان اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ پوری نوع انسانی کی نیوکلیائی بربادی اور ہلاکت، یعنی اس دنیا کو یکایک، چند گھنٹوں کے ہی اندر ایٹمی خاک کے جہنم اور تہذیب و تمدن کی ہیبت ناک تباہی کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ وہ طاقت جو اس کرۂ خاکی اور اس پر بسنے والی مخلوق کو لامحدود خوش حالی دے سکتی ہے، اس کا ہی علم اور نیوکلیائی آلات حرب کی شکل ہے، اس کا ذخیرہ، اگر نیوکلیائی جنگ چھڑ جائے، تو ماہروں کے اندازے کے مطابق پوری نوع انسانی، اس کی تمام بستیوں، آبادیوں، تمام تمدنی اور تہذیبی مظاہر کو ایک بار نہیں، بیس مرتبہ مکمل طور سے ہلاک و برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے موجودہ بڑے اور بنیادی تضادات جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا، یعنی ایک طرف بڑی مشینی صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی، یعنی نئے وسائل و ذرائع پیدا وار کی دریافت اور ان کی وجہ سےانسانی سماج کی غیر معمولی ترقی، دوسری طرف سرمایہ دار دنیا میں ان وسائل و ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت، استعمار، اجارہ داری، نوآبادیاتی نظام اور نوآبادیاتی اور استعماری جنگیں، اور عالم گیر نیوکلیائی ہلاکت کا خطرہ، اس کا متقاضی ہے کہ ان تضادات کو حاصل کرکے نوع انسانی کے راستے سے اس کی لامحدود ترقی کے راستے کی رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کیا جائے، اور ایک نظام معاشرت کی تشکیل کی جائے، جس کی موجودہ اجتماعی محنت خود متقاضی ہے، اور جس کی عملی شکل کے ابتدائی نقوش ہمیں دنیا کے ایک تہائی سوشلسٹ حصے میں نظر آنے لگے ہیں، دنیا کا وہ حصہ جہاں ذرائع اور وسائل پیداوار پر ذاتی منافع خور ملکیت کو ختم کر دیا گیا ہے، جہاں محنت کش طبقہ ذرائع و وسائل پیداوار کا مالک اور مختار ہے اور جہاں ریاست کا نظم و نسق محنت کش طبقوں کے ہاتھ میں ہے۔

لیکن جیسا کہ قدیم اور جدید عہد دونوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے، استحصال کرنے والے حکمراں طبقے، اس وقت بھی جب تاریخ کی جانب سے ان کو موت کا پروانہ مل چکتا ہے، اور جب ان کا وجود نئی ترقی پذیر قوتوں اور طبقات کے راستے میں ایک ناقابل برداشت رکاوٹ بن چکا ہوتا ہے، خود بہ خود، اپنے انجام کا ادراک حاصل کر کے پُرامن طریقے سے سیاست اور معاشرت کے اسٹیج سے ہٹ کر پس پردہ نہیں چلے جاتے، انھیں بے دخل کرنے کے لیے زندگی کی ترقی کےعلم بردار طبقوں اور گروہوں کو سخت انقلابی جدوجہد کرنا ہوتی ہے، اور یہ جدوجہد محض سیاسی یا معاشی میدان میں نہیں، بلکہ نظریاتی، فلسفیانہ، ادبی اور فنی محاذوں پر بھی جاری ہوتی ہے۔


(نام ور ادیب، انقلابی فکر و نظریہ کے حامل سماجی دانش ور اور مارکسسٹ سجاد ظہیر کے ایک مضمون سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں